بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے

قسط- 2 🥭🥭
آم کی دو بنیادی اقسام ہوتی ہیں یعنی تُخمی ( تخم یعنی آم کے بیج یا گٹھلی سے پیدا ہونے والا) اور قَلمی ( قلم کی پیوند کاری سے پیدا ہونے والا) – لیکن ، جسامت، رنگت اور ذائقے کے کئی نام ہیں جیسے سندھڑی، چونسہ، دسہری ، مالدہ، لنگڑا اور انور رٹول تو سب کے پسندیدہ آم ہیں جن کے ذائقے بہت مختلف ہوتے ہیں- اسکےعلاوہ اس پھل کے کئی نام ہیں جن میں الفانسو، طوطا پری، سفیدہ، لال بادشاہ اور نیلم جیسے ناموں سے ملتے ہیں-

آم کی سرزمین اور سرحدوں کی وسعت صرف بر صغیر یعنی پاک و ہند اور بنگلہ دیش تک محدود نہیں، یہ پاکستان، بھارت اور فلپائن تینوں ملکوں کا قومی پھل ہے اور بنگلہ دیش کا قومی درخت بھی ہے- ہمارے ڈپلومیٹ برادر ملک قمر عباس کھوکھر آجکل بنگلہ دیش میں تعینات ہیں اور وہاں کے آموں کی تصویری جھلکیاں ہمیں صرف فیس بک پر دکھا کر ہمارے ساتھ “مینگو ڈپلومیسی” کر رہے ہیں- ان کے مطابق بنگلہ دیش کا آم “ھاری بھنگا” جو ضلع رنگ پور میں پیدا ہوتا ہے اسکی گٹھلی چھوٹی ہوتی ہے اور ملک کے بہترین آموں میں شمار ہوتا ہے- مینگو ڈپلومیسی بھی اب سفارت کاری میں ایک جدید اصطلاحِ آم ہے – شیما صدیقی نے اپنے مضمون میں ہماری “مینگو ڈپلومیسی” کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
“اگر مینگو ڈپلومیسی کی بات کریں تو دنیائے سیاست میں اس کی ابتدا 1968ء میں ہوئی، جب پاکستان کے وزیر خارجہ شریف الدین پیر زادہ چینی رہنما، ماؤ زے تنگ سے ملنے چین پہنچے۔ اس دورے میں وہ اپنے ساتھ تحائف کی شکل میں آموں کی 40 پیٹیاں بھی لے گئے۔ مزے کے بات یہ ہے کہ ساٹھ کی دہائی تک چینی عوام آموں کی مزے سے واقف نہیں تھے۔ اور آج چین آموں کی پیداوار میں ایشیا کے بہت سے ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ چین میں بھارت کے بعد سب سے زیادہ آم پیدا ہوتا ہے۔ ہماری مینگو ڈپلومیسی 60 کی دہائی سے کسی نہ کسی شکل میں چل رہی ہے۔ آج بھی پاکستان اپنے کئی پڑوسی اور دوست ممالک کو آموں کے تحائف بھیج کر اپنی مارکیٹ بڑھا رہا ہے” ( شیما صدیقی: بی بی سی۔ ) بھارت اس بارے میں واویلا اس لئے مچاتا ہے کی اسکے آم کی برآمد کچھ خاص نہیں ہے اور پوری دنیا میں پاکستانی آموں کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے-

پاکستان میں آم زیادہ تر سندھ اور ملتان کے نواح و اضلاع میں ہوتا ہے- شاید اسی آم کے ذائقے کی مٹھاس ہے جو ملتانی زبان میں سرایت کر گئی ہے ( جسے سرائیکی بھی کہا جاتا ہے) – سندھ کا سندھڑی آم اپنے طلائی رزد پیلے رنگ کی بہار دکھاتا ہے جو خوش ذائقہ ہے اور وزن میں بڑا ہوتا ہے لیکن مٹھاس میں ملتان کے چونسا اور ذائقہ میں انور رٹول کے برابر نہیں ہے- آم کی زرد رنگت کے حوالے سے مرزا غالب نے اپنی نظم میں آم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:
تھا تُرنجِ زر ایک خُسرو پاس
رنگ کا زرد پر کہاں بُو باس
آم کو دیکھتا اگر اک بار
پھینک دیتا طلائے دست افشار

ترنج کا لفظ ہم میں سے کچھ لوگوں نے بزرگ لوگوں سے سن رکھا ہو گا – ترنج ایک زرد رنگ بڑے نیبو کو کہتے ہیں جسے کھٹی یا رنگترے کے پیوند سے پیدا کیا جاتا ہے- لباس پر کارچوبی کام کے ٹکڑے جو اکثر شال یا چادر اور بستر وغیرہ کی چادروں کے کونوں پر کڑھائی کر دیتے ہیں یا لگا دیتے ہیں- ان کی شکل پان کی یا آم کی کیری جسی ہوتی ہے۔

روایت ہے کہ ایران کے بادشاہ خسرو کے خزانے میں ایک قسم کا کندن یعنی خالص سونا ترنج شکل کا تھا جو اتنا نرم تھا کہ ہاتھ سے دب جاتا تھا یعنی ” طلائے دست افشار” – مرزا آم کی مدح میں فرماتے ہیں کہ خسرو بادشاہ کے پاس ایک ترنج تھا جو رنگ میں اگرچہ زرد تھا لیکن وہ خوشبو سے عاری تھا- مرزا کا دعویٰ ہے کہ اگر خسرو زرد رنگ کے آم کو دیکھ لیتا تو اس خالص سونے کو دور پھینک دیتا- مرزا نے ‘ایک’ کا لفظ شعر میں لا کر ترنجِ زر کی آم کے بالمقابل جو تحقیر کی ہے، وہ صرف محسوس کی جا سکتی ہے-

ہندوستان میں آم کے بارے میں مرزا جعفر حسین نے ” قدیم لکھنؤ کی آخری بہار” میں لکھا ہے کہ : لکھنو سے تقریبا” چودہ میل کے فاصلے پر قصبہ ملیح آباد ہے، وہاں کی سرزمین اس پھل کو راس آئی اور وہاں کی بیشتر آبادی نے آم کے باغات ہی کو ذریعہء معاش بنا لیا۔۔ بمبئی آم فصل کی پہلی پیداوار ہے، کہا جاتا تھا کہ ابتدا” بمبئی سے آتا تھا- لنگڑا یقینا بنارس سے آتا تھا اور خوشبو اور ذائقہ میں اپنا جواب نہیں رکھتا- مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تاجر اور شرفاء میں بھی کچھ لوگ لنگڑا کا پارسل وصول کرنے کے لئے پنجاب میل کا سٹیشن پر انتظار کرتے تھے- بمبئی آم کی طرح لنگڑا بھی بہت نازک ہوتا تھا اسلیے اسکو جلد استعمال کرنے کی فکر رہتی تھی- بنارس سے صبح روانہ ہوتا اور دوپہر کو لکھنؤ ریلوے سٹیشن پر وصول ہو کر تقسیم ہو جاتا تھا – ظریف( لکھنوی) مرحوم کا ایک شعر ہے:
آتا ہے دوپہر میں بنارس سے لکھنؤ
کیا تیز رو ہے آم وہ لنگڑا کہیں جسے-
(مرزا جعفر حسین: لکھنؤ کی آخری بہار)

لنگڑا آم کی بات چلی ہے تو اس کے نام۔کے حوالے سے لطیفے بھی ہیں اور شاعروں نے بھی رعایتِ لفظی کو خوب برتا ہے- پہلے لطیفہ سن لیں کہ ایک شخص(فیصل آباد کا فرض کر لیں) ریڑھی پر رکھے لنگڑا آم بیچتا پھر رہا تھا – کسی خاتون خریدار نے ازرۂ تجسّس پوچھ لیا کہ : بھائی، یہ لنگڑا آم ہے؟ ریڑھی والے کی رگِ ظرافت پھڑک گئی ، کہا: بی بی، لنگڑا ہے تبھی تو ریڑھی پر ڈال کر بیچتا پھرتا ہوں”- 😄

اس بارے میں اقبال اور اکبر آلہ آبادی کا قصہ بھی دلچسپ سے خالی نہیں- اکبر الہ آبادی نے علامہ اقبال کو لنگڑے آموں کا ایک پارسل تحفتاً بھیجا۔ اقبال نے آموں کے بخیریت پہنچنے پر رسید بھیجی اور شکریہ بھی۔ اکبر، الہ آباد سے لاہور تک بحفاظت آم پہنچنے پر حیران ہوئے اور اقبال کے خط کا جواب کچھ یوں دیا:
اثر یہ تیرے اَنفاسِ مسیحائی کا ہے، اکبرؔ
کہ الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا-

مرزا جعفر حسین لکھتے ہیں: ” ملیح آباد کا بہترین آم جو دور دور تک مشہور ہے اور عام طور سے اپنی نفاست ، نزاکت اور ذائقہ کے لئے مرغوب ہے، دسہری کے نام سے موسوم ہے- ملیح آباد کا دوسرا گراں قدر آم چوسا یا کھجری کہلاتا ہے، یہ آخر فصل میں اپنی بہار دکھاتا،اور ذائقہ چکھاتا ہے، دسہری کے مقابلہ میں بھاری اور ثقیل ہوتا ہے لیکن نفاست اور ذائقہ میں اپنا جواب نہیں رکھتا- یہ آم بنگال اور بہار دونوں مقامات پر ہوتا ہے- بہار میں اس کا نام مالدہ اور بنگال میں ثمر بہشت ہے- بہار کا مالدہ ۔۔کھجری سے خوشبو اور ذائقہ میں قریب تر ہے لیکن ملیح آباد کی کھجری کو یقینا بہار کے مالدہ پر افضلیت حاصل ہے- ملیح آبادی کا مالدہ غریب پرور پھل ہے- یہی عالم اس آم کا بھی ہے جس کو فجری کہتے ہیں لیکن یہ آم رؤسا اور شرفاء میں پسند نہیں کیا جاتا۔۔۔لکھنؤ کا سفیدہ بہت پسندیدہ رہا ہے – اس آم۔کو تخمی اور قلمی دونوں اقسام کے آم کی طرح پسند کیا جاتا ہے- (قدیم لکھنؤ کی آخری بہار، ص 412)-

بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق گنیز بک نے فلپائن کے’کارا باو‘ آم کو دنیا کا سب سے میٹھا آم تسلیم کیا ہے۔لیکن میرے ایک جاپانی دوست جوایک مدت تک پاکستان میں ترقیاتی فنانسنگ کے ادارے جائیکا کے سربراہ تھے، انہوں نے ایک ملاقات میں فلپائنی آموں کا بھانڈا خوب پھوڑا – انہوں نے پاکستان کے چونسا کے مقابلے میںنہ صرف فلپائنی آموں کو بالکل پھیکا قرار دیا بلکہ وہ تو ان کے اس ذائقے کے پیشِ نظر انہیں ” نو مینگو no mango ” کہہ کر اسے آم کی جنس سے قرار دینے میں بھی کافی تحفّظات کا اظہار کرتے تھے – وہ پاکستانی آم کے اتنے شیدائی واقعی ہوئے تھے کہ ایک دن مجھے بڑی رازداری سے کہنے لگے کہ: رضا سین، میں واپس جاپان جاتے ہوئے اپنے بیگ میں دو چار پودے چونسا کے لے جاؤں گا اور انہیں اپنے گھر کے پچھواڑے میں چوری سے کاشت کروں گا” ( چوری سے اسلئے کہ جاپان میں باہر سے اجنبی پودوں کی درآمد پر پابندی کا قانون ہے)- مجھے بھی بنگلہ دیشی اور فلپائنی آموں میں پپیتے کے ذائقے کا گمان ہوتا تھا جب تک کہ ان کی شان میں برادر قمر عباس کی روایت نہیں پڑھ لی-

(جاری)۔۔۔۔۔
ظفر حسن رضا

اپنا تبصرہ بھیجیں