ایم ایم عالم کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے

وہ قوم کبھی ناکام نہیں ہو سکتی جو اپنے ماضی سے وابستہ رہتی ہے اور اپنے وطن کے لیے قربانیا ں دینے والوں شہیدوں، مجاہدوں اور غازیوں کے کارناموں کو یاد رکھے۔ ان شہیدوں، مجاہدوں اور غازیوں کے کارنامے ہی آئندہ نسل کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ وہ ہیرو ہوتے ہیں جو ملکی دفاع اور محفوظ مستقبل کے لیے آگ کا دریا عبور کرتے ہیں اور اپنے خون سے شہادتوں کی داستان رقم کرتے ہیں۔ پاکستان کے بہادر سپوتوں نے1965ء میں وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شجاعت و بہادر کی کئی داستانیں رقم کی ہیں ان میں ایک نام اسکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم کابھی ہے جنہیں دنیا ایم ایم عالم کے نام سے جانتی ہے اور دشمن بھی جن کی بہادری کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

پاک فضائیہ نے1965ء کی جنگ کے دوران محدود وسائل کے باوجود اپنے سے تین گنا زیادہ اسلحہ اور طیارے رکھنے والے ملک بھارت کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ پاک فضائیہ نے 1965ء کی جنگ میں بھارت کے 100سے زیادہ لڑاکا طیارے مار گرائے تھے لیکن دشمن کے طیارے کو کپتان سمیت اترنے پر مجبور کرنا بہت بڑا کارنامہ تھا جو پاکستان کے سپوت ایم ایم عالم نے انجام دیا۔ یہ طیارہ آج بھی پی اے ایف کراچی کے میوزیم میں بطور ایئر ٹرافی موجود ہے۔پاکستان کے لیے فائٹر پائلٹ ایم ایم عالم نے اس جنگ میں بہادری کی ایسی لازوال تاریخ رقم کی جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔

سرگودھا کے محاذ پر ایک جھڑپ میں بھارت کے پانچ ہنٹر جنگی طیاروں کو ایک منٹ کے اندر مار گرائے جن میں چار طیارے 30 سیکنڈز کے اندر گرائے گئے۔اس جھڑپ کے دوران ایم ایم عالم نے اپنی ذہانت اور صلاحیت بروئے کار لاتے ہوئے ایک منٹ میں پانچ اور مجموعی طور پر 9 بھارتی طیارے تباہ کیے اور اب تک یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔اس فضائی معرکہ کے بعد بھارتی فضائیہ کو پاکستان کی جانب آنے کی جرأت نہیں ہوئی۔

بھارت نے 1965ء کی ہاری ہوئی جنگ کے کئی ریٹائرڈ افسران کو اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز کر کے ان کی حب الوطنی کا اعتراف کیا۔ اس کے برعکس ایم ایم عالم وہ بدقسمت قومی ہیرو تھا جس کی حب الوطنی پر شک کرتے ہوئے،1971ء کی جنگ کے دوران، پرواز کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں ایئرکموڈور کے عہدے سے جبری ریٹائر کر دیا گیا۔ریٹائرمنٹ کے بعد ایم ایم عالم بے حس سرکاری اہلکاروں اور مردہ سول سوسائٹی کی عصبیت کے پے در پے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے پھیپھڑوں کی طویل علالت کے باعث 18مارچ2013ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ طویل علالت کے دوران اسپتال میں کوئی بھی سرکاری یا غیر سرکاری اہلکار ان کو پھولوں کا ایک گلدستہ تک دینے نہیں گیا اور ان کے وصال کو تین برس کسی تذکرے کے بغیر خاموشی سے گزر گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایم ایم عالم اقبال کا وہ شاہین ہے جس پر دنیا رشک کرتی ہے۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ ان کے یوم پیدائش اوریوم وفات کو سرکاری سطح پر منانے کا اہتمام کرے۔اس کے علاوہ ایم ایم عالم، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، محافظ لاہور میجر شفقت بلوچ اور پاک فوج میں نشان حیدر پانے والے عظیم افسروں اور جوانوں کے کارناموں کو نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کو معلوم ہو کہ ہمارا حقیقی ورثہ کیا ہے اور اپنے قومی ہیروز کو پہچان سکے۔ اگر قومی ہیروز کے کارناموں اور بہادری کی داستانوں کو نصاب کا حصہ نہ بنایا گیا تو ہم اپنا حقیقی ورثہ کھو بیٹھیں گے اور یہ ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کی سب سے بڑی بد قسمتی ہوگی۔

مجاہد الآفاق

اپنا تبصرہ بھیجیں