ذہن سازی میں میڈیا کا کردار

علم کی روشنی نے انسانی دماغوں کو منور کرکے تعمیر و ترقی کے وہ مواقع پیدا کیے جو اس سے پہلے خوابوں اور گمانوں میں ہی تھے۔ خوابوں نے تعبیر کے چولے پہن کر انسان کے اعتماد کو تسخیر کی وہ قوت بخشی جس کے آگے دنیا سرنگوں ہیں ۔ ٹیکنالوجی کے اس دور ِ عظیم نے میڈیا کو طلسماتی قابلیت عطا کرکے انسانی زندگی پر اچھے برے اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت بخش دی ہے ۔

ڈیجیٹل فسوں کاری سے میڈیائی چراغ کوئی بھی حشر برپا کرسکتا ہے ۔ ٹیلی و ریڈیو پروگرامز ، اخبارات و رسائل ، فلمیں اور ویب سائٹ میڈیا کے وہ ذرائع ہیں جو راۓ عامہ کو متاثر کرتے ہیں۔ میڈیا کی مدد سے آبادی کے بڑے حصے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاسکتا ہے ۔ لوگوں کو حقوق و فرائض سے آگاہ کرنے اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں میڈیا بڑا اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔ میڈیا کا بنیادی مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا ، تعلیم دینا اور محظوظ کرنا ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ملکی میڈیا محظوظ کرنے اور آگاہ کرنے کا فریضہ ہی انجام دے رہا ہے تعلیم ملکی میڈیا کا مسلہ نہیں ۔

مقامی میڈیا کے زیادہ پروگرام سیاسی ہیں جو حکومت اور عوام میں خلیج پیدا کروانے کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔ سیاست میں الجھے یہ پروگرام کم علم یا جاہل عوام کو جن کی اپنی کوئی سوچ اور نظریہ نہیں کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہورہے ہیں ۔لوگ متعصب اور متفرق خیالات کے سبب یا تو انتہا پسندی کے رجحانات کا شکار ہورہے ہیں یا بےحس بن کر لاتعلق ۔عوامی مسائل کو حل کروانے اور حکومتی مشینری پر اثرانداز ہونے سے بےنیاز ، سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا یہ ملکی میڈیا دراصل نظریاتی افرادی قوت کا حامل نہیں ، دو جمع دو حاصل پانچ والے کاروباری افراد نے میڈیا کو کاروباری مفادات کے بھینٹ چڑھا رکھا ہے ۔ اگر میڈیا اپنا قبلہ درست کرے تو سرکاری و نجی اشتراک سے بہترین حکمت ِ عملی اور موٕثر پروگرامنگ کے ذریعے دور دراز کے پسماندہ علاقوں تک درسی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے ۔ ویتنام اور زیمبیا نے (information & communication technology ICT )

یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT)

کی ایک توسیعی اصطلاح ہے جس میں واٸرلیس مواصلات اور ٹیلی مواصلات کے انضمام سے دور دراز کے علاقوں تک تعلیم کو پھیلایا جاسکتا ہے کے ذریعہ اپنی آبادی کا 60 فیصد زیور تعلیم سے آراستہ کردیا ہے ۔

اگر ہمارے ہاں کھانا پکانے کے چینل الگ سے کھل سکتے ہیں تو ذرعی تعلیم و طریقوں ، بوتیک و فیشن ڈیزائننگ ، کمپیوٹر کورسز ، گلہ بانی کی تعلیم و طریقوں اور کم سرماۓ سے شروع ہونے والے کاروبار سے متعلق آگاہی و بیداری کے چینل کیوں نہیں نشریات کا حصہ بن سکتے ۔ میڈیا کے مختار افراد ان حوالوں سے متعلقہ صنعتوں سے رابطہ کریں تو امکانات کے نئے باب روشن ہوسکتے ہیں ، اور ملک تعلیم اور روزگار کے بڑے مسائل پر کماحقہ قابو پاکر ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہوسکتا ہے ، دور دراز کے علاقوں تک علم کی روشنی پھیلانے والی علامہ اقبال ینورسٹی تعلیم اور پروگرامز کا وہ معیار نہیں رکھتی جو وقت کے تقاضوں کو پورا کرسکے ، خالی ڈگری بانٹنے سے لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہوجاتے ، اسائنمنٹ پر ڈگری کا جاری کرنا گدھوں پر کتابوں کے لدنے کے مترادف ہے ، اس یونیو رسٹی کو مانیٹرنگ کی اشد ضرورت ہے ، نجی طور پر کام کرنے والی ورچوئل یونیورسٹی اور علامہ اقبال یونیورسٹی کے اشتراک سے نئے دور کا آغاز کیا جاسکتا ہے ۔

ہم کب تک میڈیا کی غلط روش کے متاثرین بنے رہ کر قوم کے بڑے مجرموں کی دہائیاں اور رونے سن سن کر اپنی عاقبت سنوارتے رہیں گے ؟ پاکستان میں اس وقت 90 سیٹلائٹ اور 34 بڑے چینلز کام کررہے ہیں ،لیکن انکی نشریات میں کتنے ادبی ، معلوماتی سائنس اینڈ ریسرچز پہ مبنی پروگرام چل رہے ہیں یہ لمحہ فکریہ ہے ؟ علمی و فکری استعداد کو بڑھانے اور نوجوانوں میں وقت کے تقاضوں کا شعور بیدار کرنے والے پروگرام عنقا ہیں ، سیاسی تجزیوں کا چورن ہر چینل کا خاص مسلہ یا مسالہ ہے، پروگرامز کے معیار کو لیکر پیمرا کی کوئی واضح پالیسی نافذ العمل نہیں نہ اس حوالہ سے متعلقہ عہدہ دار کوئی نظریہ رکھتے ہیں.

اگر کوئی قاعدہ قانون ہے بھی تو وہ کاغذوں میں ہی محفوظ ہے، عوام ان قوانین کے ثمرات سے تاحال محروم ہیں ، ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن انکی فکری ، علمی ، اخلاقی تربیت کے لئے ہمارے میڈیا ہاوسز کوئی ذمہ داری نہیں نبھا رہے ، ہم کس منہ سے نوجوانوں میں اخلاقی انحطاط اور مجرمانہ افعال کو زیر ِ بحث لاسکتے ہیں جب ہم خود اتنی بڑی کوتاہی کے سزاوار ہیں .

جب شہروں میں امن و امان اور قانون کی حالت ابتر ہے تو پسماندہ علاقوں کا کیا حال ہوگا، زینب جیسے واقعات پر پروگرام کئے جاسکتے ہیں لیکن ایسے واقعات کی روک تھام اور جوانوں کی اخلاقی تربیت کے لئے پروگرام ڈیزائن نہیں کئے جاسکتے ، آخر کب تک میڈیا سیاستدانوں کی غلامی اور بڑے مجرموں کے مفادات کا تحفظ کرکے عوامی استحصال کا سبب بنتا رہے گا ، سرکاری چینل معیاری پروگرامز کی ساکھ کھوچکا ہے ، اس کے پروگرام عوامی پسندیدگی کی سند رکھتے اور نہ ہی راۓ عامہ کو متاثر کرتے ہیں، نجی چینلز کی بھرمار ہے اور شتر بے مہار کی پالیسی جہاں سیاسی نوٹنکیاں، ساس نندوں کے جھگڑے اور عشق و محبت کے کائناتی مسائل مختلف زاویوں سے نوجوانوں کے افعال و کردار کومنفی سرگرمیوں میں ملوث کررہے ہیں یا وہ محبت کی افیون پی کر خیالی دنیا میں مگن ہوکر زمینی حقائق اور صحت مند طرز فکر سے دور ہورہے ہیں ، نوجونوں کے لئے خصوصی پروگرامز نشریات کا حصہ ہیں اور نا ہی ایسے آئیڈیاز کو ہی سراہا جاتا ہے جو جدت ِ خیال اور انوکھے طرز کے ہوں، بے ہنگم ، وقت کا زیاں سستی اور لایعنی تفریح کے نام پر “جیتو پاکستان” جیسے پروگرام کو مشتہر کیا جاتا ہے۔ نتائج اور سوچ کے عکاس پروگرامز ،سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی سرگرمیوں پر ڈاکیومینٹریز اور ریسرچز کو نشریات کا حصہ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ جب مختلف زبانوں اور قوموں میں مقبول ڈرامے اور فلمیں اردو ڈب کے ساتھ نشریات کا حصہ بن سکتے ہیں تو وہاں پہ چلنے والے نوجوانوں میں مقبول پروگرامز کو بھی ڈب کرکے مقامی طور پر دکھایا جاسکتا ہے ۔یہی حال ایف ایم ریڈیو چینلز کا ہے ایف ایم چینلز کو صرف تفریح فراہم کرنے کا آلہ بنایا ہوا ہے، ایف ایم چینلز کو تعلیمی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور دور دراز کے تعلیمی پسماندہ علاقوں تک مائک اور صوت کے رشتے سے علم کو پہنچایا جاسکتا ہے لیکن صرف گانوں اور بیہودہ گوئی کے علاوہ ریڈیو کا کوئی مصرف نہیں ہے ۔

چار آوازوں نے ریڈیوں کو ہائی جیک کیا ہوا ہے کوئی تعمیری سوچ نہیں یہ گانا سنیں اور فلاں جگہ سے ڈھماکہ صاحب نے پروگرام کو سراہا اور آواز کی تعریف کی ، اگر میڈیا اپنی روش تبدیل کرے تو قوم کا ہراول دستہ تیار کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے ، سائنسی تخیل ، ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس نے مغرب میں ٹیکنالوجی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، ترقی یافتہ دنیا کی سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیادیں اپنے فلاسفرز اور مفکرین کے انوکھے خیالات پر قائم ہیں اگر وہ سائنسی تخیلاتی ادب شائع نہ ہوتا تو ہم آج انکی سائنسی معجزات کے سامنے سرنگوں نہ ہوتے، ان لکھاریوں کی لامتناہی تفکیر اور وسیع النظری نے آج کے زمانہ کو ممکنات کی دنیا بنادیا ہے لیکن ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہے ہم اس حوالہ سے منفرد سوچ اور خیالات کو پروان نہیں چڑھاسکے .

ہمارے اشاعتی ادارے عوامی دسترس کے حامل رسائل و جرائد میں عشق و محبت ، ماورائی مخلوق اور تعویز گنڈوں جیسی کہانیاں چھاپنے تک محدود رہے . سائنسی تخیلاتی ادب مقامی طور پر لکھنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی غیر ملکی ادب کے تراجم ہی شائع کئے گئے ابلاغ کے ذرائع قاری و ناظر کے مزاج و مذاق کو منفرد نہج پر بنانے اور اسے تعمیری رخ پر آگے بڑھانے میں ناکام رہے . دافع الوقتی جیسے ادب کی اشاعت و پزیرئی کرکے اپنی دوکانیں چمکانے میں مصروف رہ کر ایک بڑی قومی خدمت اور فرض کی ادائیگی سے مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوۓ .

آج مغرب میں ہر سائنسی ایجاد پر کسی ناول یا کہانی کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ ہمیں فلاں کہانی یا ناول سے یہ تحریک ملی کہ ہم اس خیال کو عملی جامہ پہنا سکے، ہم ایسے عالی خیالات کی ترویج و تشہیر کو وقت کا زیاں سمجھے اس لئے ہمارے سائنسی تخیل مفلوج اور تجربہ گاہیں ویران ہیں ، ملک میں سائنسی سرگرمیاں جنگی دفاع کو بڑھانے تک محدود ہیں، ایجاد و دریافت کے حوالہ سے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کرتی . جو ایجادات میڈیا کی وجہ سے سامنے آتی ہیں وہ صرف ایک خبر بن کر رہ جاتی ہیں، سرکاری طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور نہ ہی ان منصوبوں کو نجی سرپرستی میں لیکر عوامی فلاح و بہبود کے لئے فعال کیا جاتا ہے، سوشل میڈیا کو اس حوالے بہت بہترین انداز میں استعمال کرکے دور رس نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں، لیکن موجودہ تناظر جب ہم اپنے اطراف کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اکثریت فیس بک، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام سے دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے میں مصروف ہے کہ ماموں کے گھر کے ڈرائنگ روم کے پردے کس رنگ میں تبدیل ہوگئے ، پھوپھی کی گاڑی کس نئے ماڈل میں بدل گئی، پڑوسی کے گھر میں کس تقریب کا انعقاد ہورہا ہے ،دوست کس کیفے میں کیا چیز کھانے پہنچے ہیں ، فلاں ایکٹر کا موجودہ معاشقہ کس سے ہے ، کونسی ایکٹریس کس کو چھوڑ کر کس سے دوستی کرنے میں اپنا وقت لگا رہی ہے ،عملی زندگی کے ناکام سوشل میڈیائی ہیرو بننے کے لئے اپنی زندگیاں داو پر لگا رہے ہیں . دنیا بھر کی معلومات ایک کلک کی دوری پر آگٸی ہے اور ہماری عوام معلومات کے بحر ِ ذخار سے گلی سڑی اور مردہ مچھلیاں پکڑنے میں اپنا وقت صرف کررہی ہے ۔

سوشل میڈیا پر بچے کیا دیکھ رہے ہیں کیا نہیں اس حوالے سے کسی قسم کی جاسوسی محدود وقت کے لئے موثر ہوسکتی ہے ہر وقت شیر کی نگاہ رکھنا ایک ناممکن کام ہے ، جب انڈونیشیا میں نماز کے اوقات میں انٹرنیٹ سروس معطل ہوسکتی ہے تو سوشل میڈیا کے حشیشی اثرات سے اپنی نسل کو محفوظ رکھنے کے لئے دجالی سوفٹ وئیرز کو مخصوص اوقات تک محدود کیوں نہیں کیا جاسکتا؟

سائبر قواعد و ضوابط کو قومی و ملی یکجہتی ، ایمانی تحفظ اور تعلیمی انقلاب کے لئے ازسر نومرتب کرنے کی ضرورت ہے ،عوام کو صحت مند میڈیائی سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کے لئے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو اپنا کردار فعال بنانا ہوگا. ایسے سافٹ ویئرز اور گیمز تیار کروانا ہونگے جو ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرسکیں .

کتابوں میں عوامی دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کتاب کہانی جیسے خیال کو سافٹ وئیر کے ذریعے پھیلایا جاسکتا ہے ۔ جس میں تصاویر کے ذریعے کسی کتاب کو بوجھا جاۓ پھر اس کتاب کے حوالہ سے سوال و جواب کئے جائیں ۔ آڈیو بکس کو زیادہ وسیع اور موثر انداز میں عوام کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے تاکہ نابینا ، کمزور بیناٸی اور ناخواندہ افراد بھی کتاب کی روشنی سے اپنے فکری اندھیروں کو دور کرسکیں ۔ صرف کتاب خوانی نہ ہو بلکہ مشکل الفاظ کے معنی اور سیاق و سباق کی تشریح سے کتاب کو سمجھنے میں آسانی بھی فراہم کی جاۓ ۔ اس حوالہ سے ماہرین تعلیم اور نفسیاتی ڈاکٹروں سے مشاورت فکر و خیال کے نٸے امکانات روشن کرسکتی ہے ۔

ٹیکنالوجی کی بےجا مداخلت نے نئی نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور وہ زندگی کی خوبصورتیوں ، رعنائیوں ، رشتوں کے اخلاص ، انسانی روابط کو ایک کلک سے ہلکا اور ایک اسکرین تک محدود سمجھتی ہے . ہر بات ہر واقعہ ایک سانحہ اور خبر بن کر سوشل میڈیا سے نشر ہورہا ہے . ہم معلومات کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جو لایعنی ہے اور ہماری عقول و اذہان و اوقات کو نگل رہی ہے لیکن بذات خود کسی تعمیر و ترقی کی موجد نہیں بن رہی. کسی اپچ ہاۓ خیال کو عمل میں ڈھالنے سے قاصر یہ کراۓ کی ٹیکنالوجی ہمارے جوانوں کو طفیلیہ بنارہی ہے وہ اس ٹیکنالوجی کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوۓ اور خود ٹیکنالوجی استعمال کرکے نئے کھلونے بنانے کو تیار نہیں ،عکسی کتاب ٹیکنالوجی کا کارنامہ بھی ہے اور المیہ بھی ، کارنامہ ان کے لئے جو اس کے مثبت اور تعمیری استعمال سے فلاح ِ انسانیت کے ضمن میں کوئی کلیدی کام انجام دے رہے ہیں اور المیہ ان ناعاقبت اندیشوں کے لٸے جو اسے صرف تفریح ، منفی سرگرمیوں اور تضیع اوقات تک محدود رکھے ہوئے ہیں ، عکسی کتاب کی رنگینی اور چکاچوند نے اصلی کتاب کی اہمیت و افادیت کو گہنا دیا ہے حتی کہ درسی کتابیں بھی ایک رسمیہ بن کر رہ گٸی ہیں ،عکسی کتاب کے جلوے آنکھوں کو خیرہ کرکے اوقات کو رنگین کردیتے ہیں لیکن مغز ہاۓ انسانی بےنور ہوکر اپنی ناقدری پر نوحہ کناں ہوتا ہے ،عکسی کتاب یکسوئی کے جوہر سے نابلد ہوتی ہے اس کے لفظ ریل کے منظروں کی طرح ایک کے بعد ایک نظر سے گزرتے چلے جاتے ہیں لیکن دل میں اتر کر قیام نہیں کرتے ، خیال کے زاد ِ راہ نہیں بنتے ، فکر کو اپنے معنی و مطالب سے منور نہیں کرتے .

کتاب نے ہر دور کے انسان کی بہترین دوست بن کر راہنمائی کی اسکے درد کا درماں بنی قلبی اندھیروں کو اپنے اوراق میں چھپے مرہمی اجالوں سے دور کیا لیکن عکسی کتاب کے بازاری جلووں نے انسان کو اپنی جھوٹی اداوں کا اسیر بناکر مخلص ساتھی سے دور کردیا ہے. یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ عکسی کتاب کی مصنوعی روشنی سے اصل کتاب کے نورانی لفظوں تک نوجوان نسل کو کیسے لایا جاۓ ؟ طلسم ِ سامری کا ایجاد کردہ یہ عکسی بچھڑا ایوبی نسل کے خریطہ ایمانی پہ صلیبی ڈاکہ ہے . اپنے بچوں کو اس بچھڑے کی پوجا میں وقت ضائع کرتے دیکھنا اہل ایمان کا بڑا امتحان ہے ،اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے گھر کے محاذ پر کتاب کا مورچہ بنانا سربراہان کی ذمہ داری ہے ۔۔ تعلیمی اداروں میں غیر نصابی کتابوں پر گفتگو اور ریڈنگ کلب کو رواج دینا بھی اہم ہے ، اپنے اوقات ِ کار میں کتاب کی شمولیت کا اہتمام وقت کی اہم ضرورت ہے .

نئی نسل کو یہ باور کرانا ہوگا کہ علم کا سوتہ کتاب سے پھوٹ کر اذہان کو سیراب کرتا ہے ۔ عکسی کتاب ابلیسی جال کے سوا کچھ نہیں ، سوشل میڈیا کےمتحرک و مقبول سافٹ ویئرز روح ِ بلالی کو مجروح کررہے ہیں .

گوگل سرچ نے تلاش میں مبتلا انسان کو جستجوۓ ذات سے لاتعلق کردیا ہے ، آج کا انسان اعداو شمار اور ہر چیز کی معلومات تک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں پہنچ جاتا ہے ، لیکن اپنے مقصد ِ زندگی سے ناواوقف ہے ، اپنی روح کی بیقراریوں سے ناآشنا ہے ، امن کی دنیا ابھی تک نظر سے اوجھل ہے ۔ قلب کی گہرائیوں سے پھوٹتا اقرار ِ وفا (قالو بلی) ابتک تجدید کے مراحل سے نہیں گزرا، اپنی دم کے تعاقب میں منزل سے بےنیاز یہ بےمقصد تلاش سراسر خسارے اور نقصان کے سوا کیا؟

سفر اندھیرے سے روشنی کا ہو یا ایک جگہ سے دوسری جگہ کا پہلا قدم اٹھانے کی دیر ہوتی ہے اور مسافت کٹنا شروع ہوجاتی ہے اور ایک وقت پہ ہم منزل کو اپنے پاوں تلے پاتے ہیں ۔ ایک انقلابی سفر دوسرے تمام اسفار سے زیادہ مشکل اور کٹھن ہوتا ہے ۔ لوگوں کی ذہن سازی کرکے شامل فکر و عمل کرنا ایک کار ِ دشوار ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ اس کے لئے فرہادی حوصلہ اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کاش ہم ایسے فرہادی تلاش کرنے میں کامیاب ہوسکیں جو علم دوستی کی میڈیائی نہریں جاری و ساری کر نے کے اس مشن کو شرمندہ تعبیر کرنے میں معاون ہوں اور اس روشنی کی اساس پر ہم ایسے معاشرہ کو تشکیل دے سکیں جو امن و انصاف کا علمبردار ہو ۔

تحریر: مبشرہ علوی

اپنا تبصرہ بھیجیں