کیلاش، خوبصورت دل والوں کی مسحورکن وادی

وادئ چترال پاکستان کے خوبصورت مقامات میں شمار کی جاتی ہے۔ یہاں کی خوبصورتی اور کیلاشی ثقافت اسے پاکستان کے دیگر علاقوں سے کافی زیادہ منفرد بناتی ہے۔ اس وادی میں سیاحوں کے لیے نہ صرف دلفریب مناظر سے بھرپور مقامات ہیں بلکہ ہر 50 کلومیٹر پر بدلتی ثقافت کے رنگ بھی بکھرے ہیں، یہی خاصیت اسے ملک کے دیگر مقامات سے ممتاز اور خوبصورت بناتی ہے۔کیلاش کوہ ہندوکش میں واقع ایک قبیلہ ہے جو صوبہ خیبر پختونخوا کےضلع چترال میں آباد ہے۔ یہ قبیلہ کالاش زبان بولتا ہے جودردی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان اس خطہ میں نہایت جداگانہ مشہور ہے۔

لسانیات کے ماہر رچرڈ سٹرانڈ کے مطابق ضلع چترال میں آباد قبائل نے یہ نام قدیم کافرستان سے مستعار کیا گیا ہے۔ کالاشہ یا کالاش قبائل نے وقت کے ساتھ چترال میں اپنا اثررسوخ بڑھایا۔ ایک حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیلاش نام دراصل “کاسوو“ جو بعد میں “کاسیو“ استعمال ہوتا تھا۔ یہ نام نورستان کے قبائل نے یہاں آباد قبائل کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ بعد کے ادوار میں یہ کاسیو نام کالاسایو بنا اور رفتہ رفتہ کالاسہ اور پھر کالاشہ اور اب کیلاش بن گیا۔

اس کے شمال، جنوب اور مغرب میں افغانستان واقع ہے۔ درّہ لواری کے راستے یہ ضلع دِیر سے جڑا ہوا ہے جبکہ وادیٔ مستوج کے راستے یہاں سے گلگت تک پہنچا جاسکتا ہے۔چترال کی زمین پر موجود وادئ کیلاش ایک دل نشین وادی ہے۔ یہاں کی خوبصورتی، ثقافت اور تہواروں کے رنگ پاکستان کے دیگر علاقوں سے خاصے الگ ہیں۔ وادی کے باسی اپنی قدیم روایات کو تاقیامت برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم دکھائی دیتے ہیں۔

کیلاش کی سب سے بڑی وادی بمبورت ہے۔چترال شہر سے وادئ بمبورت کا فاصلہ 40 کلومیٹر بنتا ہے۔یہاں پر کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے 1800 افراد آباد ہیں۔ بمبورت میں شفاف پانی کے بہتے دریا کے اطراف میں دور تک پھیلے مکئی اور گندم کے سرسبز کھیتوں اور ناشپاتی، خوبانی، اخروٹ اور سیب کے پھلدار درختوں سےسجے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اس قبیلے کے لوگ کیلاش کی تینوں وادیوں میں مقیم ہیں، لیکن ان کی اکثریت بمبورت میں رہتی ہے۔ کیلاش کا مطلب ہے ’کالے کپڑے پہننے والے‘، اس نام کی وجہ مقامی لباس کو دیکھنے پر معلوم ہوجاتی ہے۔ یہاں کی خواتین سیاہ لمبے فراک نما کُرتے پہنتی ہیں۔جس پر ہاتھ سے بڑے خوبصورت رنگارنگ ڈیزائین کاڑھے جاتے ہیں۔ سر کو ڈھانپنے والی ٹوپی بھی اس لباس کا ایک حصہ ہے۔ یہ پیٹھ کی طرف سے آکر سر کے اوپری حصے پر گولائی میں پھیل جاتی ہے۔ لباس کے اس ٹوپی نما حصے پر درجنوں کی تعداد میں سیپیاں، گھونگے، سکے، بٹن اور رنگین پَر و دیگر سجاوٹ کی چیزوں کو نہایت خوبصورتی سے ٹانکا جاتا ہے۔

کیلاش میں عام طور پر لوگ تین مقامات پر ضرور جاتے ہیں، یہاں کے میوزیم ، اسکول اور قبرستان ۔ جولائی 2016 میں آنے والے سیلاب نے یہاں کافی تباہی پھیلائی تھی جس کے اثرات اب بھی وہاں موجود ہیں۔ بمبورت کے قبرستان میں داخل ہونے سے پہل لکڑی کے ایک پل سے گزرنا پڑتا ہے ۔قبرستان میں ایک طرف ڈبوں میں ہڈیاں پڑی ہوئی نظر آتی ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ ایسی بھی قبریں نظر آئیں گی جن کے اوپر چارپائی اُلٹی پڑی ہوئی ہوتی ہیں۔

یہ لوگ پہلے پہل اپنے مردوں کو دفن کرنے کے بجائے لکڑی کے ڈبے میں ان کی ذاتی اشیاء کے ساتھ اس جگہ پر چھوڑ دیتے تھے۔ لاش وہیں گلتی سڑتی، بدبو پیدا کرتی اور پھر اس کا وجود ہی ختم ہوجات تھا۔ اس طرح پورے علاقے میں بدبو پھیلا کرتی تھی جبکہ مختلف بیماریاں بھی پھوٹ پڑتیں تھیں۔ گزرے وقتوں میں غیر مقامی نوجوان مردوں کے ساتھ رکھے گئے سامان کو چوری کرلیا کرتے تھے ۔ مرنے والے کی ٹوپی میں کرنسی نوٹ سگریٹ رکھی جاتی ہیں کچھ سال پہلے تک وہ مردے کو تابوت میں ڈال کر قبرستان میں رکھ آتے تھے پرندے اس کے جسم کو نوچ نوچ کر کھا جاتے تھے اور ہڈیاں باقی رہ جاتی تھیں لیکن آج کل میت کو دفنانے کا رواج ہو گیا ہے۔مردوں کی قبروں پر سیاہ جبکہ معززین کے قبروں پر سرخ جھنڈا لگایا جاتا ہے ۔ کیلاش کے لوگ مختلف ادوار میں مختلف مذاہب اختیار کرتے رہتے ہیں کیلاش مذہب میں خدا کا تصور تو ہے مگر کسی نبی یا کتاب کا کوئی تصور نہیں ان کے مذہب میں خوشی ہی سب کچھ ہے ان کے مطابق جیسے کسی کی پیدائش خوشی کا موقع ہے اسی طرح اس کا مرنا بھی خوشی کا موقع ہے چنانچہ جب بھی کوئی مرتا ہے تو ہزاروں کی تعداد میں مرد و زن جمع ہوتے ہیں میت کو ایک دن کے لئے کمیونٹی ہال میں رکھ دیا جاتا ہے مہمانوں کے لئے ستر سے اسی بکرے اور آٹھ دس بیل ذبح کئے جاتے ہیں تیار ہونے والا کھانا خالص دیسی ہوتا ہے آخری رسومات کی تقریبات کا جشن منایا جاتا ہے ان کا عقیدہ ہے کہ مرنے والوں کو اس دنیا سے خوشی خوشی سے روانہ کیا جانا چاہیے جشن میں شراب، کباب اور ہوائی فائرنگ ہوتی ہے۔کیلاش میں ہونے والی فوتگی خاندان کو اوسطا اٹھارہ لاکھ میں پڑتی ہے جب کہ یہ کم سے کم ساتھ لاکھ اور زیادہ سے زیادہ پنتیس لاکھ تک بھی چلی جاتی ہے۔

قبرستان میں مقامی قبروں میں ایک قبر ایک ہسپانوی انگریز ’جورڈی میگنر‘ کی بھی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ 1988ء سے 1994ء تک چترال میں رہے، بعدازاں کچھ عرصہ افغانستان میں گزارا اور پھر 1995ء سے 2002ء تک بمبورت میں افغان سرحد کے قریب شیخان قبیلے کے آخری گاؤں میں مقیم رہے۔انہوں نے اپنے گھر میں ایک عجائب گھر قائم کیا ہوا تھا اور گھوڑوں کی ایک بڑی تعداد پالی ہوئی تھی۔ جورڈی میگنر نے اس علاقے کی ترقی میں اہم کردار اد کیا تھا، شاید جس کی وجہ سے اس وادی سے محبت رہی ہو، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد مجھے بمبورت میں ہی دفن کیا جائے۔ 2002ء میں وہ اپنے گھر پر مردہ حالت میں پائے گئے تھے، مقامی آبادی کو شک ہے کہ وہ قدرتی موت نہیں مرے بلکہ طالبان نے انہیں قتل کیا تھا۔

یہاں ایک ممنوع مقام ہے جہاں عام آدمی کا اند رجانا تو دور اس جگہ کو چھونا بھی منع ہے، اس جگہ کا نام “بشالی” ہے۔ یہ جگہ صرف خواتین کے لئے ہے اور اس میں عارضی قیام کرنے والی خواتین کو ’بشالین‘ پکارا جاتا ہے۔ دراصل کیلاش میں خواتین اپنے مخصوص ایام کے دوران اپنا گھر چھوڑ کر اس جگہ آجاتی ہیں، کیونکہ انہیں اس حالت میں ناپاک تصور کیا جاتا ہے۔بشالی کو ’پرگاتہ‘ یعنی ناپاک جگہ بھی پکارا جاتا ہے جبکہ باقی گاؤں ’اونجسٹہ‘ یعنی پاک کہلاتا ہے۔

کیلاشی روایات کے مطابق اگر کسی خاتون کی بشالی میں موت واقع ہوجائے تو اس کی میت دیگر افراد کی طرح عبادت کے مقام پر نہیں لائی جاسکتی، یہاں تک کہ دوبارہ گھر کی طرف یا گاؤں میں بھی نہیں لے جایا جاسکتا، بلکہ اُسے بشالی کے قریب ہی نیچے وادی کے کسی مقام پر 3 دن تک رکھنے کے بعد دفن کردیا جاتا ہے۔ مقامی آباد ی میں سے اگر کوئی بشالی کے حدود کی خلاف ورزی کرے یا اس کی دیوار چھو لے یا کوئی بچہ اپنی ماں سے گاوں کی طرف چلا جائے تو پھر اس مقام پر بکرے کی قربانی کردی جاتی ہے، جس کے بعد ہی اس جگہ کو پھر سے پاک تصور کیا جاتا ہے۔

بمبورت کی دلنشین وادی میں عجائیب گھر اور اسکول ’گری ولنٹیرز‘ نامی فلاحی تنظیم کے تعاون سے تعمیر کیا گیا ہے۔ مقامی کونسلر یہاں کی ثقافت کو محفوظ کرنے اور مقامی آبادی کے ساتھ مل کر اس عمارت میں قائم کمیونٹی اسکول کے اخراجات پورے کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

عجائب گھر میں کیلاشی ثقافت کی صدیوں پرانے نوادرات اور دیگر اشیاء رکھی گئی ہیں۔ کیلاشی ثقافت کے ہر پہلو کو اُجاگر کرنے کے لیے یہاں پر نہ صرف تصاویر لگائی گئی ہیں بلکہ جرگے کی مقامی ریت، شادی و دیگر رسومات سے متعلق معلومات کی فراہمی کا اچھا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔

وتگی خاندان کو اوسطا اٹھارہ لاکھ میں پڑتی ہے جب کہ یہ کم سے کم ساتھ لاکھ اور زیادہ سے زیادہ پنتیس لاکھ تک بھی چلی جاتی ہے فوتگی کی طرح ان کے ہاں شادی اور پیدائش بھی حیران کن رواج ہے۔ لڑکے کو لڑکی بھگا کر اپنے گھر لے جانی ہوتی ہے لڑکے کے والدین لڑکی کے والدین اور گائوں کے بڑوں کو اس کی خبر کرتے ہیں جو لڑکے کے ہاں آکر لڑکی سے تصدیق کر تے ہیں کہ اس کے ساتھ کوئی زبردستی تو نہیں کی گئی بلکہ وہ اپنی مرضی سے بھاگی ہے تو یوں رشتہ ہو جاتا ہے اس کے بعد دعوت کا اہتمام ہوتا ہے۔

جس میں لڑکی والے بطور خاص شرکت کرتے ہیں شادی کے چوتھے دن لڑکی کا ماموں آتا ہے جسے لڑکے والے ایک بیل اور ایک بندوق بطور تحفہ دیتے ہیں اسی طرح دونوں خاندانوں کے مابین تحائف کے تبادلوں کا یہ سلسلہ کافی دن تک چلتا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ پیار ہونے پر شادی شدہ خاتون کو بھی بھگایا جا سکتا ہے اگر وہ خاتون اپنی رضا مندی سے بھاگی ہو تو اس کے سابقہ شوہر کر اعتراض کا کوئی حق نہیں۔

یونانی فلاحی تنظیم نے یہاں ایک ڈسپنسری بھی قائم کر رکھی تھی جبکہ کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے ضرورت مند افراد اور سکول کے بچوں کو تنظیم کی طرف سے وظائف بھی دیے جاتے تھے، لیکن اس فلاحی تنظیم کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی کے بعد یہاں تمام پروجیکٹس بند ہوگئے جس کی وجہ سے یہاں کی مقامی آبادی مشکلات کا شکار ہوگئی۔ ڈسپنسری عمارت موجود تو ہے لیکن نہ ادویات ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر۔

کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے جو بیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی۔اگر چہ دنیا نے بہت ترقی کرلی، دنیا میں بسنے والی اقوام نے اپنے رہن سہن کے طریقے بدلے، اپنی روایات میں جدید دورکے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کیں لیکن اس تہذیب کو ماننے والوں نے نہ ثقافت کو مرنے دیا نہ اپنے طور طریقوں کو۔ یہ لوگ اپنی معاشرت اور رسم ورواج کے اعتبار سے نہایت قدیم تمدن کی یاد دلاتے ہیں اور اپنے انہی رسوم و رواج کی بدولت موجودہ زمانے میں منفردحیثیت رکھتے ہیں۔

سندس رانا، کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں