کیا ’’پنڈورا پیپرز‘‘ کے انکشافات پاناما لیکس سے بھی بڑے ہیں؟

چھپی ہوئی دولت، فراڈ، جعلسازی، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ سے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور اثاثے بنانے کی عالمی تحقیقی تفتیشی رپورٹ ’پینڈورا پیپرز‘ کے نام سے ریلیز کردی گئی ہے۔

یہ رپورٹ بین الاقوامی صحافیوں کی غیرسیاسی تنظیم ’انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘ نے اپنی ویب سائٹ پر شائع کی ہے۔ اس میں 200 ممالک کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ ایک کروڑ بیس لاکھ دستاویز دیکھی گئی ہیں جن کا ڈیٹا تین ٹیرابائٹ کے برابر بنتا ہے۔

رپورٹ میں اثاثے جمع کرنے ، انہیں پوشیدہ رکھنے یا ٹیکس چوری سے دولت جمع کرنے کا تفصیلی احوال بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ آف شور کمپنیاں اور اثاثے بنانا غیرقانونی نہیں لیکن پینڈورا پیپرز میں بطورِ خاص ایسے معاملات پر زور دیا گیا ہے جن میں دولت کو ان کے اپنے ملک میں ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔

ان تحقیقات دنیا بھر کے 330 حکومتی اہلکار اور سیاستداں شامل ہیں جبکہ فوربس کے تحت 130 ارب پتی افراد، مشہور کھلاڑی، فنکار، اسلحہ فروش اور منشیات کے اسمگلر بھی شامل ہیں۔ اس تحقیقات میں 117 ممالک کے 600 صحافیوں نے اپنا تحقیقاتی کردار ادا کیا ہے۔

تحقیق کے لیے افشا شدہ دستاویز کا جائزہ لیا گیا جو 14 آف شور کمپنیوں سے جاری ہوئی تھیں۔ تمام افراد نے ایسے ممالک میں سرمایہ کاری کی جہاں دھن کے متعلق کوئی سوال جواب نہیں کیا جاتا، قوانین نرم ہیں یا پھر ٹیکس کی شرح کم ہے۔

ڈیٹا کا سمندر

آئی سی آئی جے نے ان دستاویز کو ڈیٹا کا طوفان قرار دیا ہے جس میں 64 لاکھ ٹیکسٹ دستاویز شامل ہیں جن میں 40 لاکھ پی ڈی ایف ہیں اور بعض فائلیں تو دس ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں ای میلز، اسپریڈ شیٹ اور تصاویری دستاویز بھی شامل ہیں۔ دستاویز انگریزی، عربی، ہسپانوی، روسی اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ہیں۔ یہ ڈیٹا 27 ہزار کمپنیوں سے لیا گیا ہے۔

پانامہ پیپرز سے بڑا اسکینڈل

واضح رہے کہ یہ دستاویز پانامہ لیکس کے مقابلے میں دوگنا ہیں۔ اس میں 330 سیاستدانوں اور حکومتی اہلکاروں کا احوال شامل کیا گیا ہے۔ ان کا تعلق 90 ممالک سے ہے جن میں 35 ایسے افراد ہیں جو اس وقت یا سابق سربراہان میں شامل تھے۔ تاہم روس اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے جن میں ارجنیٹٰینا، برازیل اور ویینزویلا سرِ فہرست ہیں۔

کیا ہر آف شور کمپنی غیرقانونی ہے؟

اگر قانون کے مطابق آف شور کمپنی ڈکلیئر کی گئی ہو اور وہ کمپنی کسی غیرقانونی کام کیلئے استعمال نہ ہو تو آف شور کمپنی بنانا بذات خود کوئی غیرقانونی عمل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ اس ضمن میں مزید تفصیلات آئی سی آئی جے نے اپنی ویب سائٹ پر ریلیز کی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں