پاکستان میں اولڈ ایج ہومز کا بڑھتا ہوا رجحان

کہتے ہیں کہ کسی بھی گھر کا مظبوط ستون اس گھر کا وارث یعنی باپ ہوتا ہے اور اس گھر کی کڑی دھوپ کو ٹھنڈی چھائوں میں تبدیل کرنے والی ماں ہوتی ہے ۔ اور یہ دونوں مل کر اپنی اولاد کو ہر مشکل وقت، طوفان کی گھڑی سے بچاتے ہیں اور کبھی اس گھر کی چھتوں کو اپنی اولاد کے اوپر گِرنے نہیں دیتے لیکن افسوس  جب وقت بدلتا ہے اور والدین کو ایک مظبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو اولاد ان کو بوجھ سمجھ کے اتار دیتی ہے۔مغرب کے ٹوٹے پھوٹے خاندانی سسٹم کے باعث جہاں بزرگ والدین کو اولڈ ایج ہومز میں داخل کرانے کا رجحان اپنے عروج پر ہے وہیں اب یہ سلسلہ پاکستان میں بھی عام ہوتاجارہا ہے ،۔

پاکستان ایک ایسے معاشرے پر منحصر ہے جہاں بزرگ افراد کو ایک اہم مقام اور مرتبہ حاصل ہوتا ہے مگر بد قسمتی کی بات ہے کہماڈرن دور کے طرزِ عمل کے پیروکار بن کر آج کل کے لوگ اپنے بزرگوں کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں اور تلخ سچائیوں میں ایک سچائی یہ بھی ہے کہ اکثر و بیشتر بزرگ افراد کو یا تو گھر کے کونے میں جگہ دی جارہی ہے یا گھر سے نکال کر کسی اولڈ ایج ہوم میں داخل کرا دیا جارہاہے۔

ماں باپ جو وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھے ہوجاتے ہیں جسمانی اور مالی طور پر بھی کمزور ہوجاتے ہیں اور انہیں اب کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ان کی اولاد ان سے منہ موڑ لیتی ہیں ان سے بے زار آ جاتی ہے، ان کی تکلیفوں اور پریشانیوں سے اکتا جاتی ہے، وہ اپنے کاموں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جبکہ والدین کے ساتھ وقت گزارنا ان کو وقت کا ضیاع لگتا ہے۔۔ ایک اکیلے والدین تو اپنے چار بچوں کی پرورش کر لیتے ہیں پر افسوس چار بچے مل کر بھی اپنے والدین کی خدمت اور ان کے بوڑھاپے کا سہارہ نہیں بن سکتے اور جب والدین بیمار پڑ جا تے ہیں اور ان کے پاس اپنے علاج کیلےرقم نہ ہو اور نہ ہی کوئی ان کی تیمارداری کرنے والا ہو تو پھر اولاد انہیں علاج کے بہانے اولڈ ہومز میں چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کل اولڈ ایج ہومز کا رواج بڑھتا چلا جارہا ہے اور لوگ اپنے والدین اور عزیزوں کو اولڈ ایج ہومز میں داخل کروانے کو ترجیح دے رہے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اپنے رشتے ہوتے ہوئے بھی وہ غیروں کے ساتھ زندگی کس طرح گزاریں گے۔

آجکل جگہ جگہ کھلنے والے اولڈ ایج ہومز اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اب رشتوں میں بہت دوریاں آچکی ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی جیسے رشتے بھی بوجھ بن گئے ہیں اور لوگوں میں رشتوں کے احترام اور برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے اولڈ ایج ہومز میں موجود لوگوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ نافرمان اولاد اپنے والدین یا عزیزوں کو جب اولڈ ایج ہوم میں پہنچا دیتی ہے تو انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کے پیارے وہاں کتنی تنہائی، بے بسی اور دکھوں کے ساتھ زندگی گزاریں گے اورجو اپنی آخری سانسوں تک اپنے عزیزوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں مگر کوئی ان کو واپس لے جانے کیلئے نہیں آتا یہاں تک کہ وہ اسی آس میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
بوڑھوں کو بھی جو موت نہ آئے تو کیا کریں

 یہ وطن عزیز کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں نوجوانوں کی آبادی زیادہ اور بزرگوں کی آبادی کم ہے۔ اس کے برخلاف جاپان، اٹلی، فرانس اور بلغاریہ وغیرہ میں یہ آبادی 60 سے 82فیصد ہے۔ ہندوستان میں آبادی بزرگاں کم ضرور ہے مگر چونکہ ہماری مجموعی آبادی زیادہ ہے اس لئے بزرگوں کی آبادی کو کم نہیں کہا جاسکتا۔ ورلڈ پاپولیشن رپورٹ 2019ء کے مطابق ہندوستان میں 52 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی آبادی، مجموعی آبادی کا 6 فیصد ہے۔ چونکہ حالات بدلتے جارہے ہیں ،مشترکہ خاندانی نظام شکست و ریخت کے عمل سے گزر رہا ہے، چھوٹے خاندانوں کو ترجیح دی جانے لگی ہے اور بڑی حد تک ’’یا شیخ اپنی اپنی دیکھ‘‘ کا رجحان صاف نظر آرہا ہے اس لئے یہ آبادی ہم سب کی توجہ کی مستحق ہے بالخصوص اس حقیقت پر توجہ مرکوز رکھنا ازحد ضروری ہے کہ وقت جو تیزی سے گزرتا ہے وہ ہر نوجوانوں کو روزانہ بڑھاپے کی طرف کھینچتا ہے چنانچہ آج جو نوجوان ہے اْسے کل بزرگوں کی فہرست میں شامل ہونا ہی ہے۔

ہمارا آپ کا مشاہدہ ہے کہ بزرگوں کے معاملے میں سماج تین طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ ایک وہ طبقہ ہے جو بزرگوں کی خدمت کو سعادت سمجھتا ہے اور اْن کی دیکھ بھال میں کوتاہی نہیں کرتا۔ دوسرا وہ طبقہ جو کوتاہی تو نہیں کرتا لیکن دل سے آمادہ بھی نہیں ہوتا۔ اس طبقے کے لوگ بزرگوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اس کے باوجود ’’نباہ‘‘ کرتے ہیں کیونکہ ڈرتے ہیں کہ سماج کیا کہے گا، یا اس احساس کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں کہ اب یہ کہاں جائینگے یا ہمارے علاوہ ان کا کون ہے۔ تیسرے طبقے میں وہ افراد ہیں جو بزرگوں سے بے وفائی میں تردد نہیں کرتے۔ ان کے ساتھ بدسلوکی اور بدزبانی کرنا، کھانے پینے اور علاج معالجہ سے اْنہیں محروم رکھنا، اْن کی دولت ہتھیا لینا اور اْنہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا وغیرہ اس طبقے کے لوگوں کا وطیرہ ہے۔ مہذب اور بااخلاق معاشرہ میں پہلے طبقہ کے لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے جبکہ دوسرے طبقے کے لوگ مٹھی بھر اور تیسرے طبقے کے لوگ بالکل نہیں یا بہت کم ہوتے لیکن کسی معاشرہ میں اگر تیسرے طبقے کے لوگوں کی تعداد بڑھ جائے تو اسے انسانیت سے عاری معاشرہ سمجھا جائیگا۔

مغرب بالخصوص یورپ والوں سے ہم نے یہ طریقہ کار بھی اپنانا شروع کر دیا کہ جب والدین بوڑھے ہوجائیں تو ان کو اولڈ ایج ہومز میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ اپنے ہ عمر افراد کیساتھ اپنی بچی کچی زندگی گزار سکیں ، انکا خرچہ کبھی انکی اولاد خود دیتی ہے اورکبھی حکومت یا پھر این جی اوز برداشت کرتی ہیں۔

یہ جاننا بھی ضرروی ہے کہ ’’ اولڈ ایج ہومز‘‘ کا طریقہ کار یورپ اور پاکستان میں یکسر مختلف ہے، یورپ میں تو سو شل سکیورٹی کا باقاعدہ نظام موجود ہے، جہاں ملازمین کی تنخواہوں میں سے سوشل سکیورٹی ٹیکس لیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں ایسا مضبوط نظام قائم نہیں ہے۔یہاں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ والدین ’’اولڈ ایج ہومز ‘‘میں سکھی ہیں یا بس جی رہے ہیں۔

ایک اور نقطہ یہ بھی ہے کہ یورپی باشندوں کے پاس وقت نہیں ہوتا وہ اس لئے والدین کو اولڈ ہومز میں داخل کراتے ہیں۔وہ ایک مشین کی طرح کام کرتے ہیں اسی لئے وہ اپنے بچوں کو ڈے کیئر میں چھوڑتے ہیں، اور پھر یہی بچے بڑے ہو کر انہی والدین کو اولڈ ایج ہومز میں داخل کرا دیتے ہیں۔ پاکستان میں بعض لوگ والدین سے اکتا جاتے ہیں یا پھر خود غرض بیوی کے کہنے پر یہ حرکت کرتے ہیں، بعض افراد کا خون سفید ہو جاتا ہے اور وہ اپنے بزرگوں کو یہ کہہ کر اولڈ ایج ہوم بھیج دیتے ہیں کہ وہ انکا ماہانہ خرچہ برداشت کرتے رہیں گے، مگر ایک دو ماہ کے بعد ہی وہ والدین سے رابطہ توڑ دیتے ہیں، اور پھر ان بیچارے والدین کو اپنی باقی کی زندگی صدقے اور خیرات کے پیسوں پر گزارنا پڑتی ہے۔ ایسے کم ظرف لوگ یہ نہیں سوچتے کہ آج وہ اپنے والدین کو بوجھ سمجھ کر ان سے جان چھڑا رہے ہیں اور کل کو انکی اولاد بھی انکے ساتھ ایسا ہی سلوک کر سکتی ہے۔

پنجاب سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے حکام کے مطابق اس وقت پنجاب میں 6 اولڈایج ہومز سرکاری سطح پر کام کررہے ہیں جبکہ 10نجی اولڈایج ہومز ہیں۔ اگر صرف لاہور کی بات کی جائے تو ادارے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ شہر کے مختلف اولڈ ایج ہومز میں 700 کے قریب بزرگ شہری موجود ہیں جو زندگی کے آخری ایام یہاں گزارنے پر مجبور ہیں، ان بزرگ شہریوں کی رہائش، خوراک، علاج اور ادویات کا انتظام اولڈ ایج ہومز کی انتظامیہ مخیر حضرات سے ملنے والی ڈونیشن اور صدقات وعطیات سے کرتی ہیں جبکہ کئی بزرگ شہریوں کے بچے اورخاندان ان کی کفالت کا ماہانہ بنیادوں پرخرچہ ادا کرتے ہیں۔

اسی طرح سندھ کے سینئیر سیٹیزن ویلفیئر ایکٹ 2014 کی شق نمبر 8 کے مطابق صوبہ کے ہر ضلع میں اولڈ ایج ہوم کا قیام یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے ، جس پر عمل نہیں ہوا، چنانچہ سندھ ہائیکورٹ نے حال ہی میں حکومت کو احکامات جاری کیے ہیں کہ ہر ضلعے میں اولڈ ایج ہوم بنایا جائے ، جس میں بزرگ افراد کو تمام تر سہولیات بھی دی جائیں۔ یقینا اس سنگین صورتحال کیلئے انتظامات کرنا صرف و صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ملک کے مخیر حضرات کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اولڈ ایج ہومز بنانے کیلئے کھل کر امداد دیں تاکہ کسی کے ماں باپ سڑک پر سڑکوں پر تنہا نہ رہیں اور یونہی ایڑیاں رگڑتے ہوئے دوسری دنیا کے سفر پر نہ رخصت ہوجائیں ۔

در بہ در ٹھوکریں کھائیں تو یہ معلوم ہوا
گھر کسے کہتے ہیں کیا چیز ہے بے گھر ہونا

سندس رانا، کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں