ملک میں کسانوں کو درپیش مسائل

پاکستان کی 70فیصد آبادی زراعت پر منحصر ہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر زراعت کو ترقی دینے والا کسان یہاں بہت پریشانی کا شکار ہے۔پاکستان کا کسان دن بدن زوال کا شکار ہوتا جا رہا ہے اس کی بڑی وجہ حکومتی تعاون سے محرومی ہے کسان کو ٹیوب ویلز کے بل ہی آگے نہیں بڑھنے دیتے اور رہی سہی کسر بوسیدہ بیج اور فرسودہ طریقوں سے فصل اگانے نے نکال دی ہے۔

زراعت کا جی ڈی پی میں 19.3 فی صد حصہ ہے۔ اس میں 60 فی صد حصہ لائیو اسٹاک کا ہے اور 40 فی صد فصلوں کی مد میں آتا ہے۔ فصلوں میں 80 فی صد حصہ پانچ بڑی فصلوں کا ہے، جس میں گندم، چاول، کپاس، مکئی اور گنا شامل ہیں۔ باقی 20 فی صد میں چارہ، دالیں، پھل اور سبزیاں ہیں۔

زراعت کے شعبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی افرادی قوت کی اکثریت زراعت سے منسلک ہے اور پاکستان کی پہچان بھی زرعی ملک کے طور پر ہی ہوتی ہے۔ لیکن ملک میں کسان ماحولیاتی تبدیلیوں، “ناقص” پالیسیوں اور مہنگائی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں۔شوکت علی چدڑ ‘پاکستان کسان بورڈ’ کے صدر ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کی ناقص زرعی پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں کا استحصال ہو رہا ہے۔

زراعت میں رسک بہت زیادہ ہے اور منافع سارا ‘مڈل مین’ کو ملتا ہے۔ کسانوں کو اچھی کوالٹی کا بیج میسر نہیں ہے۔ کھاد، کیڑے مار اسپرے اور دواؤں کی قیمتیں بہت مہنگی ہیں اور ان کے معیار کے تعین کا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔ کھاد پر کھاد مافیا کا کنٹرول ہے، بیج پر بیج مافیا قابض ہے، کیڑے مار دواؤں پر متعلقہ انڈسٹری کا کنٹرول ہے۔ وہ جب چاہیں، جتنا مرضی چاہیں، قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ایسا محکمہ نہیں ہے جو کسان کی فصلوں کی قیمت کا تعین کرے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ فصل پر لگائی گئی رقم تک وصول نہیں ہوتی۔

کسان ان مسائل سے اتنے پریشان ہیں کہ غصے اور بے بسی کے عالم میں دو سال قبل کسانوں نے اپنی تیار فصل زمینوں کے اندر ہی جلا دی کیوں کہ انہیں جائز قیمت نہیں مل رہی تھی۔

گندم، کپاس، چاول اور گنا پاکستان کی اہم ترین فصلوں میں شامل ہیں جنہیں ‘کیش کراپ’ بھی کہتے ہیں۔ لیکن گندم کی سرکاری ‘سپورٹ پرائس’ کے تعین میں کسانوں کے مطالبات پورے نہ کرنے پر کاشت کار ہڑتال بھی کرتے ہیں لیکن وقتی طور پر بہلا پھسلاکر کسان کو خاموش کروادیا جاتا ہے اور بنیادی مسائل وہیں موجود رہتے ہیں۔

زراعت کے شعبے سے وابستہ آبادی کا 50فیصد بے زمین ہاریوں پر مشتمل ہے اور یہ غربت سے بری طرح متاثر ہیں۔ جاگیر دارانہ نظام ،ایک ظالمانہ نظام بن گیا ہے۔کسانوں کو پانی کی کمی کا بھی سامنا رہتا ہے۔ آبپاشی کی سہولتیں بھی ناکافی ہیں۔بھارت کی طرف سے آبی دہشت گردی بھی ہوتی رہتی ہے۔دریاؤں کے پانی پر اس کا کنٹرول ہے۔یہ جب چاہتا ہے ،پاکستان میں سیلاب اور قحط لے آتا ہے۔

کسانوں کی ناخواندگی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے اور یہ زراعت میں جدت لانے میں ایک رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔فی ایکڑ پیداوار کم ہے۔اس سے مجموعی ملکی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔ زرعی شعبہ خصوصی فنڈز کی کمی کا شکار ہے۔آبپاشی کے ناقص نظام کی وجہ سے بہت سا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ پانی کی آلودگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔اس کا سبب نمکیات کی کمی بیشی ہے،زمین کی ملکیت کی حد طے نہیں اوربڑی بڑی جاگیریں بے آباد اور بے کارپڑی ہیں۔

پاکستان میں چھوٹے چھوٹے کھیتوں کی تعداد زیادہ ہےلہٰذا ان میں جدیدطریقوں سے کاشتکاری ممکن نہیں ہوتی۔

حکومت نے اپنے فیصلوں میں زراعت کو کبھی ترجیحی طور پر نہیں لیا۔اس لئے یہ شعبہ حکومتی عدم دلچسپی کا شکار ہے۔یہاں کھیتوں کا ناہموار ہونا بھی ایک سبب ہے جس سے کسان وہ کام نہیں کر پاتے جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔کھادوں کا غیر متناسب استعمال بھی مسائل کو جنم دیتا ہے۔

غیر معیار بیجوں کا استعمال بھی پیداوار پر اثر ڈالتا ہے،ناقص زرعی ادویات، دوہرا نقصان پہنچاتی ہیں ۔ایک تو پیداوار ضائع ہوتی ہے دوسرے زمین بھی ناکارہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

پاکستان واحد ملک ہے جہاں زرعی آلات پر ٹیکس عائد ہے۔منڈیوں تک رسائی میں بھی دشواریاں حائل ہوتی ہیں ۔1947 سے لے کر 1950 کے عشرے کے آخر تک شعبہ زراعت کی شرح افزائش 3 فیصد کے لگ بھگ رہی۔ اور حیرت کی بات ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے زرعی شعبے کی شرح افزائش لگ بھگ 3 فیصد تک ہی ہے۔ 50 اور 60 کے عشرے میں صنعتی شعبے کی طرف توجہ کے باعث صنعتی شعبے کی شرح افزائش 8 تا 10 فی صد تک بھی جا پہنچی تھی۔

گزشتہ کئی عشروں سے یہی صورت حال برقرار ہے کہ زرعی اشیا کی قیمتیں کم چلی آ رہی ہیں۔ مہنگائی کے باعث اب غریب کسانوں پر ایک ستم یہ بھی ہو رہا ہے کہ زرعی مداخل کی قیمتیں بڑھتی چلی آ رہی ہیں ، لوڈ شیڈنگ کے باعث ڈیزل اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث زرعی پیداواری لاگ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس طرح آمدنیاں اور وسائل زرعی شعبے سے صنعتی شعبے کی جانب منتقل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔

کسانوں کے زرعی مسائل میں اس وقت انتہائی شدت پیدا ہو جاتی ہے جب انہیں جعلی کھاد ناقص ادویات و بیج مل رہے ہوتے ہیں۔ ناقص کھاد وہ بھی بلیک میں مہنگے داموں خریدتے ہیں ، اسی طرح جعلی ادویات بہت زیادہ قیمت ادا کر کے جب خریدتے ہیں اور پھر نتیجے کے طور پر کم پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ اتنی لاگت لگانے کے بعد جب پیداوار بھی کم حاصل ہو رہی ہو، پھر جب فروخت کا عمل شروع ہوتا ہے تو پیداوار کو خریدنے والے اونے پونے دام دے کر غریب ہاری اور کسانوں کو مایوس کر دیتے ہیں۔

تیزی سے ترقی کرتی اس صدی میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی کسان کی بنیادی ضرورت بن گئی ہے غریب کسان مالی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے فرسودہ بیج کا استعمال کرتا ہے لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کسان اسے حکومتی تعاون یقینی بنایا جائے۔

حلال رزق کا مطلب کسان سے پوچھو
پسینہ بن کے بدن سے لہو نکلتا ہے!!

سندس رانا، کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں