زلزلہ کیا ہے؟ پاکستان میں آنے والے زلزلوں کی تاریخ!

زلزلہ قشر الارض سے توانائی کے اچانک اخراج کى وجہ سے رونما ہوتے ہيں۔آسان الفاظ میں اگر زلزلے کی تعریف بیان کی جائے توز مین کے اندر موجود چٹانی پرتیں مسلسل حرکت میں رہتی ہیں اور جب وہ اپنی جگہ سے کھسکتی ہیں تو ان کے کناروں پر شدید دباؤ پڑتا ہے اور جب یہ دباؤ ایک خاص سطح پر پہنچتا ہے تو وہ زلزلے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔زلزلے کے جھٹکوں سے زمین کی سطح پر موجود چیزوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ عمارتیں اور دوسری تنصیبات گر جاتی ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ درخت اور بجلی کے پول زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ اگر متاثرہ علاقے میں دریا یا جھیلیں ہوں تو ان کی جگہ بدل سکتی ہے۔ پہاڑوں میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔

اگر زلزلے کا مرکز سمندر کی تہہ یا ساحلی علاقوں کے قریب ہو تو سمندری طوفان اور سونامی آ سکتے ہیں اور بپھری لہریں ساحلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔

فالٹ لائن کا مطلب زیرِ زمین پلیٹوں کا ٹوٹ کر مختلف حصوں میں تقسیم ہو جانا ہے جو زمین کے نیچے حرکت کرتے رہتے ہیں اور یہ حصے دباؤ جمع کرتے رہے ہیں۔زلزلے کی فالٹ لائنز مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں جن میں سے سٹرائیک سلپ ایک قسم ہے، جس میں زمین کے دو حصے اپنی جگہ سے الٹی سمت میں حرکت کرتے ہیں۔ایک اور قسم ’نارمل فالٹ‘ میں زیر زمین فالٹ لائن نیچے کی جانب سے گزرتی ہے جبکہ ’ریورس فالٹ‘ میں فالٹ پلیٹیں اوپر کی جانب بڑھتی ہیں۔پھر ایک ایسا موقع آتا ہے جہاں پر ان کو کسی مقام پر اپنا دباؤ نکالنے کا موقع ملتا ہے تو پھر اس مقام پر زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ کبھی زیادہ شدت کے ہوتے ہیں اور کبھی کم۔

پاکستان کے  کونسے حصے زلزلے کے خطرے میں رہتے ہیں؟؟

سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ فالٹ لائن پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کا دو تہائی علاقہ ممکنہ طور پر زلزلے کے خطرے میں رہتا ہے۔جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا بڑا حصہ انڈین پلیٹ پر واقع ہے جبکہ یہاں سے یوریشین (یورپ اور ایشیا) اور عرب پلیٹیں بھی گزرتی ہیں۔

پاکستان انڈین پلیٹ کی شمالی سرحد پر واقع ہے جہاں یہ یوریشین پلیٹ سے ملتی ہے۔ یوریشین پلیٹ کے دھنسنے اور انڈین پلیٹ کے آگے بڑھنے کا عمل لاکھوں سال سے جاری رہا ہے۔ہمالیہ کا وجود بھی لاکھوں سال پہلے زیرِ زمین پلیٹوں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں ہوا تھا۔ اب بھی ہمالیہ متحرک ہے اور یہ ہر سال ایک سینٹی میٹر بڑھ رہا ہے۔

زلزلوں کے حوالے سے ملک کی تقسیم:

جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے ملک کو زلزلوں کے حوالے سے چار زونز میں تقسیم کر رکھا ہے۔

  • زون ون میں زلزلے کے امکانات کم سمجھے جاتے ہیں۔ زون ٹو میں زلزلے کے کچھ امکانات سمجھے جاتے ہیں اور ان میں پنجاب کے میدانی علاقے اور وسطی سندھ شامل ہیں۔
  • زون تھری میں زلزلے کے کافی زیادہ امکانات سمجھتے جاتے ہیں۔ ان میں کراچی، بلوچستان، سکردو، سوات، پشاور، میدانی ہمالیہ کے علاقے آتے ہیں۔
  • جبکہ زون فور کے اندر انتہائی خطرے کا شکار علاقوں میں پوٹھوہار، کشمیر، ہزارہ، شمالی علاقہ جات، کوئٹہ اور ہمالیہ کے پہاڑی علاقے آتے ہیں۔

ریکٹر اسکیل کیا ہے؟

ریکٹر اسکیل ایک پیمانہ ہے جس سے زلزلے کی شدت کی پیمائش کی جاتی ہے۔ ریکٹر اسکیل کے موجد ایک امریکی سائنس دان چارلس ریکٹر ہیں جنہوں نے 1935 میں ایک آلہ متعارف کرایا تھا ۔ تاہم اس کی مدد سے بڑے زلزلوں کی صحیح شدت ناپنے میں ناکامی کے بعد اب مومنٹ میگنیچیوڈ سکیل زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔

زلزلے کی اقسام

زلزلوں کو عمومی طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ریکٹر اسکیل پر چار درجے سے کم شدت کے زلزلوں کو معمولی یا کمزور نوعیت کا زلزلہ کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے زیادہ نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔

چار سے زیادہ اور چھ سے کم درجے کا زلزلہ درمیانی شدت کا زلزلہ کہلاتا ہے، جس سے تھوڑا بہت نقصان پہنچ سکتا ہے، جیسے چینی کے برتن اور پلیٹیں وغیرہ ٹوٹ سکتی ہیں۔ جب کہ ریکٹر اسکیل پر 6 سے 7 شدت کے زلزلے عمارتوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جب زلزلے کی شدت 8 کے ہندسے بڑھتی ہے تو وہ تباہ کن شکل اختیار کر سکتا ہے۔ عمارتیں ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو سکتی ہیں، سڑکیں اور ریلوے لائنیں ٹوٹ پھوٹ سکتی ہیں۔

پاکستان میں زلزلوں کی تاریخ

رواں سال دسمبر میں کراچی میں رات 10 بج کر 16 منٹ پر زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جن کی شدت 4.1 اورگہرائی 15 کلومیٹر تھی جبکہ زلزلے کا مرکز ڈی ایچ اے کراچی سے 15 کلومیٹر شمال میں تھا۔

7 اکتوبر 2021 میں بلوچستان میں 5 اعشاریہ 9 شدت کا زلزلہ آیا تھا ۔ جس کے نتیجے میں 20 افراد ہلاک، 200 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

چوبیس ستمبر، 2013 کو بلوچستان میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں اب تک 328 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جبکہ سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

کوئٹہ میں سولہ اپریل 2013 کو ریکٹر اسکیل پر 7.9 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے جھٹکے پاکستان، ایران، ہندوستان اور چند خلیجی ملکوں میں بھی محسوس کیے گئے تھے۔

چار اپریل، 2013 کو پاکستان کے شمالی علاقوں بشمول فاٹا کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے، ریکٹر اسکیل پر ان جھٹکوں کی شدت 5.4 ریکارڈ کی گئی تھی۔ مذکورہ زلزلے کے نتیجے میں کسی جانی یا مالی نقصان کی کوئی اطلاعات نہیں ملیں۔

سترہ فروری، 2013 کو 5.5 کی شدت سے آنے والے زلزلے نے پاکستان کے شمالی علاقوں بشمول فاٹا کو ہلا دیا تھا، جن میں نوشہرہ، پشاور، ملاکنڈ، شانگلہ، گلگت بلتستان کے مختلف علاقے، لوئر دیر اور خیبر کے قبائلی علاقے شامل ہیں۔ اس زلزلے میں بھی کسی بڑے جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں۔

انتیس دسمبر، 2012 کو افغانستان کے ہندوکش علاقے میں 5.8 کی شدت کا زلزلہ آیا تھا جس کے جھٹکے پاکستان کے بھی کچھ حصوں میں محسوس کیے گئے، تاہم اس کے نتیجے میں بھی کسی بڑے جانی یا مالی نقصانات کی اطلاع نہیں۔

اٹھارہ جولائی، 2012 کو 5.7 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے جھٹکے ملک کے مختلف حصوں میں محسوس کیے گئے جس کا مرکز محکمہ موسمیات کے مطابق کوہ ہندوکش تھا تاہم اس زلزلے میں بھی کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔

بارہ جولائی، 2012 کو 6.1 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے جھٹکے اسلام آباد، روالپندہ اور پنجاب میں محسوس کیے گئے اور اس کا مرکز بھی کوہ ہندوکش میں تقریباً 194 کلومیٹر زیرزمین تھا اور اس کے نتیجے میں نقصانات کا اطلاع نہیں۔

پچیس مئی، 2012 کو ایک درمیانی شدت کا زلزلہ کوئٹہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں محسوس کیا گیا تاہم کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی۔

بارہ مئی، 2012 کو کوئٹہ کے علاقے سہراب میں درمیانی شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کے گئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

انیس جنوری، 2012 کو ریکٹر اسکیل پر 4.5 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے جھٹکے تیس سیکنڈز تک محسوس کیے گئے اور متاثرہ علاقوں کوئٹہ، زیارت، خانوزئی، پشین، ہرنائی، قلعہ عبدللہ اور ٹوبہ اچکزئی شامل تھے۔

پندرہ مئی، 2011 کو درمیانی شدت کے زلزلے کے جھٹکے خیبر پختونخواہ اور وفاقی دارالحکومت کے مختلف حصوں میں محسوس کیے گئے جس کی شدت 4.7 تھی اور اس کا مرکز مانسہرہ سے چونسٹھ کلومیٹر شمال مغرب میں اکتالیس کلومیٹر زیرِزمین تھا۔ اس زلزلے میں بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

تین اپریل، 2011 کو سات گھنٹوں کے وقفے کے دوران کراچی میں 2.8 اور 4.7 شدت کے دو زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، تاہم ان سے بھی کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں۔

بائیس جنوری، 2011 کو درمیانی شدت کے زلزلے کے جھٹکے اسلام آباد اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں محسوس کیے گئے۔

بیس جنوری، 2011 کو 7.4 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے جھٹکے کوئٹہ میں محسوس کیے گئے جس کا مرکز بلوچستان کا ضلع خاران میں تھا۔ اس کے نتیجے میں دو سو سے زائد مکانات تباہ ہوئے تھے۔

اٹھارہ جنوری، 2011 کے زلزلے کے نتیجے میں پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں کئی افراد ہلاک جبکہ دو سو سے زائد عمارتیں تباہ ہو گئی تھیں۔ اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.2 ریکارڈ کی گئی تھی۔

اٹھائیس اکتوبر، 2010 کو خیبر پختونخواہ، پنجاب، آزاد کشمیر اور اسلام آباد میں 5.3 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

اٹھارہ جنوری، 2010 کو 7.4 کی شدت سے والا زلزلہ کراچی میں محسوس کیا گیا، جس کا دورانیہ تقریباً ایک منٹ تھا۔ اس سے کسی بڑے نقصان کی اطلاعات نہیں ملی تھی۔

اٹھائیس اکتوبر، 2008 کو ریکٹر اسکیل پر 6.4 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں کوئٹہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں ایک سو ساٹھ افراد ہلاک جبکہ تین سو ستر افراد زخمی ہوئے تھے۔

آٹھ اکتوبر، 2005 کو ریکٹر اسکیل پر 7.6 کی شدت سے آنے والے زلزلے نے کشمیر اور شمالی علاقوں میں تباہی پھیلا دی تھی۔ زلزلے کے نتیجے میں اسی ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت، دو لاکھ سے زائد افراد زخمی اور ڈھائی لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو گئے تھے۔

چودہ فروری، 2004 کو ریکٹر اسکیل پر 5.7 اور 5.5 کی شدت سے آنے والے دو زلزلوں کے نتیجے میں خیبر پختونخواہ اور شمالی علاقہ جات میں چوبیس افراد ہلاک جبکہ چالیس زخمی ہو گئے تھے۔

تین اکتوبر، 2002 کو ریکٹر اسکیل پر 5.1 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں تیس افراد ہلاک جبکہ ڈیڑھ ہزار کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

چھبیس جنوری، 2001 کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں پندرہ افراد ہلاک جبکہ ایک سو آٹھ زخمی ہوئے تھے۔ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 6.5 نوٹ کی گئی تھی۔

بیس مارچ، 1997 کو ریکٹر اسکیل پر 4.5 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں باجوڑ کے قبائلی علاقے کے گاؤں سلارزئی میں دس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اٹھائیس فروری، 1997 کو ریکٹر اسکیل پر 7.2 کی شدت کا زلزلہ پورے پاکستان میں محسوس کیا گیا جبکہ اس کا دورانیہ تیس سے نوے سیکنڈز تک تھا۔ پاکستان کے تقریباً تمام علاقوں میں محسوس کیے جانے والے اس زلزلے کے نتیجے میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اکتیس مئی، 1995 کو نصیر آباد ڈویژن کے بگٹی پہاڑوں کے دامنی علاقوں میں آنے والے 5.2 شدت کے زلزلے کے نتیجے میں ایک درجن مکانات تباہ اور تین بچوں سمیت پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔

سولہ جنوری 1978 کو پشاور میں ایک درمیانی شدت کا زلزلہ آیا تھا جس کا مرکز پشاور سے تین سو کلومیٹر شمال میں کوہ ہندوکش میں تھا۔ اس زلزلے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

بیس اکتوبر 1975 میں کوئٹہ میں ایک انتہائی شدید زلزلہ آیا تھا تاہم اس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی تھی۔

ستائیس جنوری، 1975 کو مری بگٹی میں بھی ایک درمیانی شدت کا زلزلہ آیا تھا، جس کا مرکز کوئٹہ سے ایک سو چالیس کلومیٹر جنوب میں کوہ سلیمان میں تھا۔ تاہم اس کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

اٹھائیس دسمبر، 1974 کو ریکٹر اسکیل پر 7.4 کی شدت کے زلزلے سے ہزارہ، ہنزہ، سوات اور خیبر پختونخواہ میں پانچ ہزار تین ہلاکتیں ہوئی تھیں جبکہ سترہ ہزار افراد زخمی اور چار ہزار چار سو مکانات بھی تباہ ہو گئے تھے۔

تیس جون 1974 کو پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایک انتہائی شدت کا زلزلہ آیا تھا جس کے جھٹکے تیس سیکنڈز تک محسوس کیے گئے اور اس کے نتیجے میں چار ہلاک اور کئی عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔

سندس رانا، کراچی

اٹھارہ مئی 1974 کو درمیانی شدت کے زلزلے کے جھٹکے ایبٹ آباد میں محسوس کئے گئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

اسی طرح تیرہ مئی 1973 کو راولپنڈی اور اسلام آباد میں درمیانی شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تاہم اس زلزلے میں بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

چھ مئی 1972 کو راولپنڈی، اسلام آباد، ایبٹ آباد اور ملحقہ علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے کئی سیکنڈز تک محسوس کیے گئے جس کے بعد لوگ عمارتوں سے باہر آ گئے تھے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

یکم جنوری 1972 کو اسلام آباد، راولپنڈی، ایبٹ آباد، لاہور اور ملحقہ علاقوں میں اٹھارہ سیکنڈز تک زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے اور اس کے بعد، سیالکوٹ میں بھی پچاس سیکنڈز تک زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

اٹھائیس دسمبر 1971 کو پشاور اور راولپنڈی میں شدید نوعیت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تاہم کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔

دو اکتوبر 1971 کو ایبٹ آباد اور ہزارہ کے چند حصوں میں زلزلے کے پانچ جھٹکے محسوس کیے گئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

یکم اکتوبر 1971 کو راولپنڈی میں درمیانی شدت کا زلزلہ آیا تھا تاہم اس میں بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

دس ستمبر 1971 کو گلگت کے کچھ علاقوں میں شدید زلزلہ آیا تھا جس کے نتیجے میں سو سے زائد افراد ہلاک جبکہ ایک ہزار سے زائد مکانات تباہ ہو گئے تھے۔

چار ستمبر 1971 کو ایبٹ آباد میں چھ مرتبہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جس کے نتیجے میں عمارتوں میں دراڑیں پڑ گئیں لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

تین ستمبر 1971 کو راولپنڈی میں دو منٹ کے وقفے کے دوران سات زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تاہم اس کے نتیجے میں بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں