ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن سرکاری خزانے پر بوجھ؟؟ مستند نظام کی اشد ضرورت!

رواں مالی سال 2021-2022 کے لیے 8ہزار 487 ارب روپے کا بجٹ پیش کیاگیا جس میں سے 160ارب روپے تنخواہوں اور پنشن کیلئے مختص کئے گئےہیں۔ یہ موجودہ حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا تیسرا بجٹ تھا۔

وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد ایڈہاک ریلیف کی صورت میں اضافے کا اعلان کیا جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی دس فیصد اضافے کی نوید سنائی ۔ کورونا وائرس کے بحران اور اس کی وجہ سے معیشت میں پیدا ہونے والے منفی رجحان کے باعث حکومت نے گزشتہ سال سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھا ۔ لیکن شاید ایسا کم ہی ہوتا ہے۔

مدتِ ملازمت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہونے پر پنشن کا مالی فائدہ ہمارے ہاں اکثریت کی سرکاری نوکری کی جستجو کی چند بڑی وجوہات میں سے ایک ہے اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں۔ سرکاری نوکری حاصل کرنے کےلئے وہ خود سے پیسے دینے کو بھی تیار ہوتے ہیں اور اکثر تو ہر طرح کی سفارش کروا کے کسی بھی طرح بس سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ سرکاری سطح پر ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں بلکہ سرکاری نوکری حاصل کرنے چند بڑی وجوہات میں سے ایک ملازمت ختم ہونے کے بعد ملنے والی پنشن ہے کیونکہ کئی افراد کے گھروں کے چولہے جلنے میں یہ پنشن ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

لیکن اصل مدعا یہ ہے کہ ایک طرف حاتم طائیوں کی طرح سخی سرکار کے پنشن قوانین ہیں اور دوسری طرف ملکی مالی بدحالی۔ پاکستان میں پنشن کی مد میں اخراجات میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا بڑھتا ہوا حجم، تین نسلوں تک پنشن کے استحقاق کا انگریز کے دور کا قانون، جینے کی اوسط عمر میں اضافے کی وجہ سے نئے ریٹائر ہونے والوں کے مقابلے میں پنشن سے نکلنے والوں کی کہیں کم تعداد اور سالانہ پنشن میں تفریق شدہ اضافہ ہے۔

سرکارِ پاکستان کے ملکیت میں آنے والے نیم سرکاری اداروں جن میں پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن اور دیگر کئی ادارے شامل ہیں، ان کے پنشن کی مد میں اخراجات اس وقت ایک ہزار ارب کے علاوہ ہیں۔

اگر ایک دفعہ کوئی سرکاری ملازمت حاصل کرلیتا ہے تو وہ انگریزوں کے بنائے ہوئے موجودہ پنشن قوانین کے تحت نہ صرف ریٹائرمنٹ کے بعد ماہانہ پنشن حاصل کرتا ہے بلکہ اس دنیا سے گزر جانے کے بعد اس کی بیوہ اور دو نسلیں اس سہولت سے فیض یاب ہو سکتی ہیں۔

سرکاری ملازم کی وفات کے بعد پنشن اس کی بیوہ کو ملتی ہے اور بیوہ کی وفات کی صورت میں یہ سہولت 24 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملتی ہےاور اس کے بعد حکومتِ پاکستان غیر شادی شدہ بیٹے یا بیوہ بیٹی اور اس کے بعد اس کے بچوں کو پنشن دینے کی پابند ہے یعنی 25 سال کی ملازمت کے بعد ایک اندازے کے مطابق 75 سال تک آپ کا خاندان سرکار کے اس مشاہرے کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ یہ بات غریب طبقے کے لئے بے حد موزوں ہے لیکن بڑے عہدوں پر کام کرنے والوں کی پنشن میں ان کی ہاتھی جتنی تنخواہ کے مطابق کیا جاتا ہے جبکہ ان کو شاید ان پنشن کے نہ ملنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا یا شاید کم از کم ان کے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہیں پڑتا۔

پنشن کوئی بُری چیز نہیں ہے لیکن ملکی خسارہ اور بدحالی دیکھنے کے بعد افسوس یہ ہوتا ہے کہ ملک قرضے میں ڈوبا ہوا ہے اور ایک بڑا حصہ پنشن کی مد میں خرچ کیا جاتا ہےاور اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات کا ہے یہاں بھی امیر اور غریب میں تفرقہ کیا گیا ہے۔ جو امیر ہے اسے بے پناہ سہولیات سے نوازا جارہا ہے اور غریب بیچارہ لمبی قطاروں میں کھڑا ہوکر چند ہزار روپے کے لئے ذلیل وخوار ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔

بالائی ترین حکام اور زیریں ترین اسٹاف کے درمیان تنخواہوں اور پنشن کا فرق اتنا زیادہ بڑھتا جا رہا ہے کہ پورے پاکستان میں زیریں درجے کے ہر محکمے کے ملازمین مخمصہ بنتے جا رہے ہیں۔ تمام سرکاری محکموں کے زیریں اسٹاف کی تنخواہ اور پنشن کے بارے میں آج تک کسی نے سنجیدگی سے کچھ بھی نہیں سوچا ،حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اورنیم سرکاری ادار ے اور کارپوریشنوںمیں بھی اب سب کچھ گریڈ 17 تا 22 کے لئے ہی وقف ہو کر رہ گیا ہے۔بالائی ترین اور زیریں ترین تمام عہدیداروں کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے حفظ مراتب کا خیال کرکے تنخواہ اور مراعات لازمی دی جانی چاہییں۔ پاکستان میں فی الوقت یا ماضی کے تمام ایم پی اے ، ایم این اے ، سنیٹرز ، وزرائے اعلی ، وزرائے اعظم اور صدور میں سے کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہوتا جو کہ حکومت پاکستان سے ملنے والی ان مراعات کا حقیقی حقدار ہو ۔ کچھ عرصہ قبل کی خبر کے مطابق بنگلہ دیش میں حسب اقتدار اور اختلاف نے باہمی مشاورت اور اتفاق و اتحاد سے سابق صدر کو ہی دوبارہ صدر منتخب کرلیاتھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ صدر صاحب اپنی تمام عائلی اور خانگی ذمہ داریوں سے فارغ ہوچکے تھے ،انہوں نے اپنی مقرر شدہ سرکاری تنخواہ کو رضا کارانہ طور پر انتہائی کم کردیا تھا اور تنخواہ کے بقیہ حصہ سے اپنی معمولی ضروریات اور ایوان صدر کے یوٹیلٹی بل تک خود ادا کیا کرتے تھے ۔ لیکن پاکستان کے اعلی عہدیداران میں سے کوئی ایسی مثال موجو د نہیں ہے۔ ان عہدیداروں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کے پاس نوے ہزار ایکٹر ملکیت سے لے کر، کم از کم 20 مربع اراضی موجود ہیں، لیکن پھر بھی وہ ہر سال تنخواہ کے نام پراس سالانہ اضافی دھکم پیل میں برابر کے شامل ہوتے ہیں۔

محکمہ ڈاک کے کُل بجٹ کا 34 فیصد پنشن کی ادائیگیوں کے لیے مختص ہے جب کہ پاکستان ریلوے کو سالانہ تقریباً 40 ارب روپے صرف پنشن کی ادائیگیوں کے لیے درکار ہوتے ہیں اور یہ رقم ریلوے کے موجودہ ملازمین کی کُل سالانہ تنخواہوں کی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح وفاق کے پنشن کے470 ارب کے کُل اخراجات میں سے تقریباً 370 ارب روپے مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی ادائیگی کی مد میں خرچ ہوتے ہیں۔

صوبہ پنجاب کے پنشن کے اخراجات میں سالانہ 24 فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ محصولات کی مد میں آمدن میں اضافہ صرف 13 فیصد کے قریب ہے۔ اسی طرح صوبہ خيبر پختونخوا کے پنشن کے اخراجات میں پچھلے دس سالوں میں تقریباً آٹھ گنا اضافہ ہوا ہے۔

پنشن کی مد میں اخراجات کی یہ صورت حال کسی طوربھی دیرپا نہیں کیونکہ قومی وسائل جو ملک کی معاشی صورت حال اور غیر یقینی سیاسی صورت حال سے جڑے ہیں، بہت ہی کم ہیں۔ ایک طرف حکومت ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن پر اتنی خطیر رقم خرچ کر رہی ہے تو دوسری طرف صرف گذشتہ چندماہ میں بیروزگار افراد میں دوکروڑ افراد کا اضافہ ہوا ہے جو پچھلے دو سالوں میں بیروزگار ہونے والے تقریباً 22 لاکھ افراد اور ملک میں پہلے سے موجود بیروزگار افراد کے علاوہ ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 11 لاکھ فارغ التحصیل نئے طلبہ نوکریوں کی تلاش میں شامل ہوتے ہیں۔

پنشن کی مد میں بڑھتے اخراجات صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہیں اور ان اخراجات میں ہوش ربا اضافے سے نمٹنے کے لیے دنیا کے کئی ملکوں نے، جن میں بھارت، فرانس اور امریکہ کی ریاستیں وغیرہ شامل ہیں، پنشن فنڈ قائم کیے ہیں۔ ان پنشن فنڈز میں پاکستان میں رائج موجودہ سسٹم کے برعکس، جس میں صرف حکومت اپنا حصہ ڈالتی ہے، ملازمین اپنی ماہانہ تنخواہ کا کم از کم دس فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔

وہاں کی حکومتیں بھی ملازمین کی طرف سے ڈالی جانے والی رقم کے برابر رقم اس فنڈ میں ڈالتی ہیں اور اس جمع ہونے والی رقم کی منافع بخش سکیموں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔

ملازم کو ریٹائرمنٹ کی قانونی عمر پر ریٹائر ہونے پر پنشن فنڈ میں اس کے اکاوٴنٹ میں جمع رقم اور اس پر منافع میں سے ایک خاص تناسب اسے یکمشت ادا کر دیا جاتا ہے اور باقی رقم 70 سال کی عمر تک ماہانہ پنشن کی صورت میں دی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ ملازم یا اس کے اہل خانہ اس پنشن کے مستحق نہیں رہتے۔ البتہ ریٹائر ہونے پر ملازم کے پاس اپنی رقم کی سرمایہ کاری کے لیے مختلف آپشن ضرور موجود ہوتے ہیں۔

پنشن کی سہولت کو مکمل طور پر بند کرنا پاکستان میں پنشن کی ادائیگی سے جڑے مسائل کا قطعی حل نہیں ہے کیونکہ ایک تو یہ بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن سیاسی فیصلہ ہے دوسرا اس کا تمام وفاقی اور صوبائی محکموں پر یکساں اطلاق تقریباً ناممکن ہے اس لیے حکومت پاکستان کو پنشن کے موجودہ قوانین میں بنیادی اصلاحات کرکے نسل در نسل پنشن کی ادائیگی اور غریب اور امیر کی پنشن میں بے پناہ تفرقہ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ پنشن کا ایک باقاعدہ نظام جو اس ملک کے لوگوں اور معیشت کے حساب سے ہو ، اس کے لیےہمیں دوسرے ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہےکیونکہ لکیر کے فقیر بننے سےبہتر ہے کہ ملک کا امیر اس بارے میں کوئی بہتر فیصلہ کر لے!

سندس رانا، کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں