بچپن کے حادثات اور واقعات کا جوانی پر کتنا اثر پڑتا ہے؟؟ آئیے جانتے ہیں!!

بچپن کی کچھ تلخ یادیں ، حادثات یا واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کا اثر اس وقت تو شایداتنا محسوس نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی اس کے منفی اثرات بڑے ہونے پر سامنے آتے ہیں ۔ بچپن کے حادثات اور منفی تجربات آگے چل کر بہت گہرے انداز میں ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ابتدائی زندگی میں تشدد، نظر انداز کیے جانے کے واقعات اور منفی تجربات ہماری پیشہ ورانہ اور ازدواجی زندگی پر گہرے اور دیرپا اثرات چھوڑتے ہیں۔ ان تجربات کا اظہار ہمیں جوانی میں کرتے ہوئے پریشانی، دکھ اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اس سے بڑھ کر مناسب حالات، سازگار ماحول ، بہتر رہنمائی اور معالج کی سہولت کا میسر نہ ہو نا بھی اہم وجوہات ہیں ۔

یہ مسائل ہمارے رویوں اور مزاج کو بری طرح متاثر کرتے ہیں جس کی وجہ سے کئی نوجوان، اپنے بچپن سے فرار حاصل کرنے اور مسائل سے چھپنے اور سکون کے حصول کے لئے وقتی چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ بچپن کی زندگی کے منفی اثرات کا مناسب اور بہتر حل تلاش نہ کیا جائے تو جوانی اور پروفیشنل زندگی میں اس سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔

ایسے حالات کئی نوجوانوں کو نشے کی لت میں دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں جن میں شراب نوشی، بے جا غصہ، لڑائی جھگڑے، جذبات اور احساسات کے اظہار سے محرومی، احساس کمتری، نفسیاتی مسائل اور ذہنی دباؤ کا شکار قابل ذکر ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ ایسے معاملات کو سمجھنے کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں اور نہ ہی ایسی سوچ کو قبول کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں تاہم ترقی یافتہ معاشرے میں ذہنی صحت اور نفسیاتی صحت کو بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اگر کسی نوجوان میں ایسے نشانات اور علامات ظاہر ہوں تو اس کا علاج فرسودہ طریقوں اور سب سے آسان طریقہ شادی کر کے کر دیا جاتا ہے۔

نوجوانی ایک انوکھا اور ابتدائی وقت ہے۔ اس عمر کے افراد جن کی عمر10سے 20سال کے درمیان ہوتی ہےمتعدد جسمانی وجذباتی تبدیلی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے افراد نہ صرف ذہنی و جسمانی بدلاؤ کا شکار رہتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ معاشرتی و معاشی تبدیلیاں بشمول مالی حالات اور لوگوں کا رویہ نوجوان دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تنگ دستی اور ناروا سلوک نوعمروں کو ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بنا سکتی ہے۔ نفسیاتی تندرستی کو فروغ دینا اور نوعمروں کو منفی تجربات سے بچانا بے حد ضروری ہے۔ نوجوانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا ایک مثبت معاشرے کی بقاء کے لیے بے حد اہم ہے۔

لوگ خود میں موجود ایسی علامات کے باوجود بھی نارمل نظر آتے ہیں لیکن وہ اپنے اندر ایک عجیب جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں ۔ کئی لوگ ان علامات اور مسائل کے ساتھ جینے کی کوشش کرتے ہیں اور ذہنی سکون کے لئے وقتی حربے استعمال کرتے ہیں۔ بہت سی مثالیں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں جن میں بظاہر خوش نظر آنے والی کئی ہستیوں نے موت کو گلے لگالیا ہویا نشے کی لت میں پڑگئے ہوں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کیا بھلانے کےلئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں کیونکہ بظاہر تو وہ ان حادثات کو بھول جاتے ہیں لیکن اندر ہی اندر ان کے دماغ پر اس کے گہرے نقش موجود ہوتے ہیں۔ حادثات کے دیرپا اثر رہتے ہیں جسے ماہر نفسیات پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈِس آڈر یعنی (پی ٹی ایس ڈی) کہتے ہیں۔

ابتدائی زندگی کے حادثات کے اثرات زندگی بھر رہتے ہیں۔ آج یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بچپن میں تشدد، منفی رویے اور نظر انداز کیے جانے کے تجربات ہماری شخصیت، قدرتی صلاحیتوں اور اعتماد کو بری طرح ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ یہ واقعات ہمارے بھروسے، تعلقات اور قریبی رشتوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں جو ہمیں بہت عزیز ہوتے ہیں۔

ضرورت اس امر کے جاننے کی ہے کیا ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہے یا اس بیماری کا کوئی علاج ہے؟؟تو خوش خبری یہ ہے کہ ایسے کئی طریقے اورعلاج ہیں جن کے ذریعے ذہنی مسائل سے کنارہ کیا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے مسائل کے حل کے لئے بے شمار کام ہو چکا ہے۔ ایسی ریسرچز، تجربات، مشاہدات اور طریقہ کار اور ہدایات موجود ہیں جن سے استفادہ حاصل کر کے بچپن کے مسائل سے نجات حاصل کر کے پر سکون زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے ایک ماہر نفسیات اور تجربہ کار انسان کی ضرورت ہے۔ ایسا شخص جو بچپن میں ان مسائل کا شکار رہا ہے اس کے لئے یہ عمل انتہائی تکلیف دہ اور مشکل ہو گا لیکن ناممکن نہیں، ایسے انسان کو اپنے ساتھ انتہائی ذمہ داری اور ایمانداری کا مظاہرہ کرنا ہے۔

بچپن میں جو مسائل کسی بچے کے ننھے ذہن پر اثر کرسکتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں ، ماں باپ میں ہر وقت لڑائی جھگڑا یا مار پیٹ دیکھنا، یہ مسئلہ بڑے ہوکر ان کی ازدواجی زندگی پر بہت اثر انداز ہوتا ہے، ایسے بچے بڑے ہوکر وہی کرتے ہیں جو انھوں نے بچپن میں اپنے گھر میں دیکھا ہوتا ہے۔

دوسرا مسئلہ ماں باپ کی علیحدگی کی بعد ان کی الگ الگ جگہ دوسری شادی ہوجانا ہے، ایسے حالات میں بچے اپنے آپ کو بے حد اکیلااور مجبور سمجھتے ہیں اور انکی قوت خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے یا پھر وہ شدید غم و غصے کا شکار ہوجاتے ہیں۔بڑے ہوکر کہیں نہ کہیں یہ بات ان کے دماغ میں جمی رہتی ہے کہ ان کے ماں باپ نے انھیں اپنایا نہیں یا چھوڑ دیا، یا سوتیلے ما ں باپ کا سلوک ان کو ذہنی طور پر آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی شخصیت متاثر ہوجاتی ہے اور آگے چل کر زندگی میں مثبت رویے بھی ان بچوں کی اس خلاء کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

اسی طرح سے بچپن میں اپنے کسی عزیز یا قریبی رشتے دار کی اچانک موت بھی اس بچے کے دماغ پر منفی ثرات چھوڑ دیتی ہے۔وہ یہ صدمہ قبول نہیں کر پاتے اور ذہنی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں ، جیسے انھیں مختلف دورے پڑنے لگتے ہیں، جن بھوتوں کا تصور کرنے لگتے ہیں یا کسی خیالی شخص کی موجودگی کا اظہار کرنے لگتے ہیں اور یہ بہت ہی مشکل صورتحال ہوتی ہے، ایسی صورتحال سے اس شخص کا عام زندگی میں واپس بہت مشکل ہوتا ہے لیکن یہ قطعی طور پر ناممکن نہیں۔

ان مسائل میں سے ایک بہت ہی اہم اور تکلیف دہ مسئلہ جو عام طور پر موضوع بحث نہیں آتا وہ یہ ہے کہ کچھ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ چاہے بچہ ہو یا بچی کسی کے ساتھ بھی یہ حادثہ پیش آیا ہو تو وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ خود کو اس معاشرے کےقابل نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس بارے میں کسی سے بات نہیں کر پاتے کہ وہ کس ذہنی کیفیت سے گزر رہے ہیں ۔ وہ دل ہی دل میں ان باتوں کو دباکر آگے بڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں ، لیکن انہیں ڈر ہوتا ہے کہ یہ بات کسی کو پتہ چل گئی تو کوئی ان کا دوست یا ساتھی نہیں بنے گا اور معاشرہ ان کو دھتکارے گا۔ لیکن اگر ایسے وقت میں بچوں کو تنقید کا نشانہ بنانےاور ترس کھناے کے بجائے ان کی باقاعدہ طور پر کائونسلنگ کی جائے تو نتائج بہت مثبت ہوسکتے ہیں۔

قصور ہمارے معاشرے کا بھی ہے جہاں ان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کرنے کے بجائے لوگ مذاق بناتے ہیں یا ان بچوں کو قبول نہیں کرتے۔ اس طرح بچےمزید تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں یا گمراہی کی راستے پر چل پڑتے ہیں۔

اس قسم کے مسائل پیدا نہ ہوں، اس لئے گھر کے بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے سامنے ایسی کوئی بات یا عمل کرنے سے گریز کریں جس سے بچے ذہنی طور پر متاثر ہوں، مکمل طور پر نہ سہی لیکن ے اس بات کی پوری کوشش کی جائے کہ بچوں کو اچھی طرح سمجھیں ، ان سے بات کریں ،ان کے مسائل کو سنی،ں ان میں خود اعتمادی پیدا کریں ، ان کا موازنہ کسی صورت دوسرے بچے سے نہ کریں تاکہ ابتدائی سطح پرہی معاملات کو گھرکی چار دیواری میں جلد از جلد حل کرلیا جائے۔گھر میں موجودبچوں کے تمام مسائل کی بخوبی جانچ پڑتال کریں جس کی وجہ سے ان کا بچپن متاثر ہوا ،تاکہ ایسے عوامل جو ذہنی اذیت کا باعث بنے، سمجھنے اور حل کرنے میں آسانی ہو سکے۔ اس کے علاوہ ان مسائل کے پس پردہ حقائق کو جاننے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ مسئلے کی جڑ تک پہنچاجاسکے جس نے ان کے بچپن اور جوانی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

جب تک ان حادثات کا جامع مطالعہ، تجزیہ اور مشاہدہ نہیں کیا جائے گا، ایسے انسان کو رشتوں، تعلقات اور زندگی کے دیگر شعبۂ جات میں مسائل کا سامنا رہے گا۔ ایسا انسان مسلسل شرمندگی اور افسردگی کا سامنا کرتے ہوئے ایسے رویے اپنائے گا جس سے دوسرے انسان اس سے دور رہنے کو ترجیح دیں گے۔

یہ ایک بہت ہی اہم اور توجہ طلب موضوع ہے جس پر جتنی بات کی جائے کم ہے۔ ان مسائل کے اسباب کو جاننے، ان کے سدباب کرنے اور ایسے لوگوں کی راہنمائی کرنے کے لئے کئی اہم اقدامات سرانجام دینے کی ضرورت ہے۔آگہی ، شعور اور مناسب معلومات کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ہم پتھروں کے دور میں نہیں ہیں، چیزیں بہت تبدیل ہوچکی ہیں، ماڈرن طرزِ زندگی میں صرف اچھا لباس، فیشن یا پڑھائی ہی نہیں اچھی تربیت، اچھا ماحول اور اچھا دماغ ہونا بھی شامل ہے اور اس دورمیں بےشمار ذرائع ہیں جن کو استعمال کر کے مشکل اور پیچیدہ زندگی بھی آسان اور خوبصورت بنائی جا سکتی ہے ۔ ضرورت صرف ہاتھ بڑھا کر ان ذرائع سے فائدہ اٹھانے کی ہے۔ آج کا بچہ کل کا مستقبل ہے!

سندس رانا، کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں