بابائے قوم کی سالگرہ پر ان کی کچھ یادگار اقوال

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جو اپنے خطاب کی بلکل درست ترجمانی کر چکے ہیں۔ آج ہمارے اس محسن کی  146 ویں سالگرہ ہے، یعنی 25دسمبر۔ جی ہاں قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔قوم آج عقیدت و احترام سے ان کا یوم پیدائش منا رہی ہے جبکہ قومی اور سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم لہرائے جارہے ہیں۔

وہ 1893اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلینڈ روانہ ہوئے جہاں سے بابائے قوم قائدِ اعظم نے 1896 میں وکالت کا امتحان پاس کیا اور بیرسٹر کی ڈگری حاصل کر کے وطن واپس آئے.

بابائے قوم قائدِ اعظم محمدعلی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز انیس سو ساٹھ میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت سےکی۔1913میں بابائے قوم قائدِ اعظم محمدعلی جناحؒؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی.

اس دوران بابائے قوم نے خود مختار ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کیے.پونجا جناح کے گھر جنم لینے والے اس بچے نے برصغیر کی نئی تاریخ رقم کی اور مسلمانوں کی ایسی قیادت کی جس کے بل بوتے پر پاکستان کا وجود یقینی ہو۔

مسلمان رہنماؤں نے جناح کو 1934ء ہندوستان واپسی اور مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کے لئے راضی کیا۔ جناح 1940ء کی قراردادِ پاکستان (قرار دادِ لاہور) کی روشنی میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست بنام پاکستان بنانے کے لئے مصروفِ عمل ہوگئے۔1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں میں کامیابی حاصل کی اور جناح نے پاکستان کے قیام کے لئے براہ راست جدوجہد کی مہم کا آغاز کردیا، جس کے ردِ عمل کے طور پر کانگریس کے حامیوں نے جنوبی ایشیاء میں گروہی فسادات کروادئیے۔ مسلم لیگ اور کانگریس کے اتحاد کی تمام تر کوششوں کی ناکامی کے بعد آخر کار برطانیہ کو پاکستان اور بھارت کی آزادی کے مطالبے کو تسلیم کرنا پڑا۔ بحیثیت گورنرجنرل پاکستان، جناح نے لاکھوں پناہ گزینوں کی آبادکاری، ملک کی داخلی و خارجی پالیسی، تحفظ اور معاشی ترقی کے لئے جدوجہد کی۔

انھوں نے  اپنی زندگی میں بہت سی  ایسی باتیں کہی ہیں جو ہمارے لئے اقوال ِ زریں کی حیثیت رکھتی ہیں، آج ہمیں سخت ضرورت ہے کہ ہم ان تمام بوتوں کو پھر سے یاد کریں جو محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے دوران اور اس کے حصول کے بعد ہمارے لئے کہی تھیں۔ کیونکہ  یہ وہی باتیں اور نصیحتیں ہیں جن پر عمل کرکے ہم اپنی اصل شناخت پہچان سکتے ہیں اور ایک اچھی قوم کےطور پر سامنے  آسکتے ہیں۔ آ ئیں  ملت کے پاسبان کی کچھ باتوں کو دہرائیں تاکہ ہماری موجودہ نسلیں بھی ان  سے مستفید ہوسکیں:

  • آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب، 21 اکتوبر 1939ء:
  • اپنی تنظیم اِس طور پر کیجئے کہ کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ یہی آپ کا واحد اور بہترین تحفظ ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی کے خلاف بدخواہی یا عناد رکھیں۔ اپنے حقوق اور مفاد کے تحفظ کے لیے وہ طاقت پیدا کر لیجئے کہ آپ اپنی مدافعت کرسکیں۔
  • مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور سے خطاب، 23 مارچ 1940ء:
  • چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے، بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں، اُن کے ساتھ فیاضی کو بھی رواء رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اِس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔
  • مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب، 2 نومبر 1940ء
  • اقبال نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ رکھ دیا ہے جس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا۔ وہ دورِ حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اِس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا۔ مجھے اِس کا فخر حاصل ہے کہ آپ کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ میں نے اُس سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔
  • ہفت روز حمایتِ اسلام، لاہور، 6 مارچ 1941ء:
  • یہ تلوار جو آپ نے مجھے عنایت کی ہے، صرف حفاظت کے لیے اُٹھے گی۔ لیکن فی الحال جو سب سے ضروری امر ہے، وہ تعلیم ہے۔ علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے، جائیے اور علم حاصل کیجئیے۔
  • 30 جون 1947ء کو آل انڈیا ریڈیو، دہلی سے خطاب کرتے ہوئے:
  • اِس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں کو جانے کے لیے، اپنی مساجد کو جانے کے لیے، اور دیگر عبادت کے مقامات کو جانے کے لیے۔ آپ کسی بھی دین، مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں، کارِ ریاست کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
  • کراچی میں پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی سے صدارتی خطاب، 11 اگست 1947ء:
  • جو لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ختم کردیں گے، بڑی سخت بھول میں مبتلاء ہیں۔ دنیاء کی کوئی طاقت پاکستان کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی، اِس پاکستان کا جس کی جڑیں مضبوط اور گہرائی کے ساتھ قائم کردی گئی ہیں۔ ہمادے دشمنوں کے اُن خوابوں یا اِرادوں کا نتیجہ جس کی وجہ سے وہ قتل اور خونریزی پر اُتر آتے ہیں، سوائے اِس کے کچھ نہ نکلے گا کہ کچھ اور معصوم اور بے گناہوں کا خوب بہے۔ یہ لوگ اپنی حرکتوں سے اپنے فرقہ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ لگا رہے ہیں۔
  • 24 اگست 1947ء کو جلسہ عام سے خطاب:
  • میرے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو دیانتداری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔
  • 27 اگست 1947ء:
  • ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے، اُتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے اُبھریں گے، جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔
  • 24 اکتوبر 1947ء کو عید الاضحیٰ کے موقع پر قوم سے خطاب:
  • ہمیں جو دکھ دیا گیا ہے اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، مگر ہمیں پاکستان کو قائم رکھنے کےلیے ابھی اور قربانی کرنی ہو گی ۔ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا، ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ اگر اسی طرح تمام ملت ہمت اور لگن کے ساتھ کام کرتی رہی تو ہماری یہ مصیبتیں انشاءاللہ بہت جلد ختم ہو جائیں گی۔
  • لاہور میں میموتھ ریلی سے خطاب، 30 اکتوبر 1947ء:
  • میں اُن لوگوں کی سوچ کو نہیں سمجھ سکتا جو جان بوجھ کر یا شیطانی سازشوں کے سبب پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کا آئین اسلامی شریعت کے مطابق نہیں ہوگا۔ اسلامی قوانین آج کی زندگی میں زیادہ قابل قبول ہیں بہ نسبت 1300 سال قبل کے۔
  • کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب، 25 جنوری 1948ء:
  • حکومت کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے، عوام کی بے لوث خدمت، اُن کی فلاح و بہبود کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرنا، اِس کے سواء برسراقتدار حکومت کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟۔ اور اگر اِس کے علاوہ کوئی اور مقصد سامنے ہے تو ایسی حکومت کو اقتدار سے الگ کردو، لیکن ہلڑبازی سے نہیں۔ اقتدار آپ کے پاس ہے اور یہ آپ کی چیز ہے۔ آپ کو اِسے استعمال کرنے کا فن بھی آنا چاہیے۔ آپ کو سیاسی نطام کے اسرار و رموز اور طریق کار بھی سیکھنے چاہئیں۔
  • ڈھاکہ میں جلسہ عام سے خطاب، 21 مارچ 1948ء:
  • آزادی کا مطلب بے لگام ہوجانا نہیں ہے۔ آزادی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں اور مملکت کے مفادات کو نظرانداز کرکے آپ جو چاہیں، کر گزریں۔ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ۔ اب یہ ضروری ہے کہ آپ ایک منظم و منضبط قوم کی طرح کام کریں۔ اِس وقت ہم سب کو چاہیے کہ تعمیری جذبہ پیدا کریں۔ جنگ آزادی کے دِنوں کی جنگجوئی کی اب ضرورت نہیں رہی۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے جنگجویانہ جذبات اور جوش و خروش کا مظاہرہ آسان ہے اور ملک و ملت کی تعمیر کہیں زیادہ مشکل۔

محمد علی جناح نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر جس ملک کا قیام رکھا اس طرح کی مثالی ملک بننے میں اب بھی فاصلہ باقی ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کا ہر فرد ایک آزاد، پرامن، ترقی یافتہ اور تمام اقوام و مذاہب کے احترام کے قابل ملک کے قیام کے لیے قائد کے امنگوں کے مطابق کردار ادا کرتا رہے اور ان کی کہی ہوئی ایک ایک بات کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے کیونکہ یہی  اقوالِ زریں ہم سب پاکستانیوں  اور پاکستان کے وقار کو برقرار رکھنے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔

سندس رانا، کراچی
 

 

اپنا تبصرہ بھیجیں