کینسر سے بچاؤ کا عالمی دِن

آج کے دن یعنی 4 فروری کو ہر سال دنیا بھر میں کینسر کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد کینسر سے متعلق آگاہی اور شعور فراہم کرنا ہے۔ یہ دن یونین برائے بین الاقوامی کینسر کنٹرول (یو آئی سی سی) کے زیر اہتمام کینسر سے بچاؤ پروگرام کے تحت مقرر کیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کینسر دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مرض بن چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2032 تک دنیا بھر میں کینسر کے مریضوں کی تعداد 1 کروڑ 40 لاکھ سے بڑھ کر 2 کروڑ 50 لاکھ تک ہوسکتی ہے۔

کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسمانی خلیے بے قابو ہو کر تقسیم ہونے لگتے ہیں اور پھر یہی خلیے نارمل خلیوں کو بھی تباہ کر کے پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ ہمارے جسم کا گروتھ کنٹرول کرنے والا نظام خراب ہو جاتا ہے اور اس طرح پرانے عمر رسیدہ سیلز اپنے متعین وقت پر ختم نہیں ہو پاتے اور نئے بننے والے سیلز بھی بلا ضرورت بنتے رہتے ہیں۔ یہ سیلز بے قابو ہو کر ایک گچھے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جسے ٹیومر کہتے ہیں۔

دنیا بھر میں ہرسال اندازہ 80 لاکھ سے زائد افراد مختلف اقسام کے کینسر کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ تعداد ایڈز، ٹی بی اور ملیریا کی وجہ سے ہونے والی مشترکہ اموات سے بھی زیادہ ہے۔

اس دن کو منانے کا مقصد انفرادی اور اجتماعی طورپر کینسر جیسے موذی مرض کے اسباب کو جاننا اور اس کے سدباب کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔ اس موقع پر لوگوں کو کینسر کی مختلف اقسام، وجوہات، ابتدائی علامات، علاج معالجہ اور اس سے بچاؤ کے متعلق معلومات اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے سیمینارز، واکس اور مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں یو آئی سی سی کی جانب سے تین سال (2019ءتا2021ء) کے لیے #IAmAndIWillکے نام سے تھیم پیش کی گئی تھی۔

پاکستان میں تقریبا ہر سال تین لاکھ افراد کینسر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ 2020ء کی بات کریں تو دنیا بھر میں خواتین سب سے زیادہ چھاتی کے کینسر اور مرد سب سے زیادہ پھیپھڑوں اور پروسٹیٹ کینسر کا شکار ہوئے۔ آئی اے آر سی کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال ایک لاکھ 78 ہزار 388 افراد کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے، جبکہ اس مہلک مرض کے باعث ایک لاکھ 17ہزار149افراد (60,789مرد اور 56,366خواتین) اپنی جان کی بازی ہارگئے۔ پاکستان میں مجموعی طور پر چھاتی، منہ اور پھیپھڑوں کے کینسر سے سب سے زیادہ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

امریکی محققین نے سرطان کی 31 اقسام کا تجزیہ کیا ہے جن میں سے 9 اقسام کو موروثی کہا جاسکتا ہے جو والدین سے منتقل ہوتی ہیں۔ لیکن اس کی بہت سی اور بھی وجوہات ہیں جن میں منشیات کااستعمال، سگریٹ نوشی، زہریلا دھواں، زرعی ادویات، فضائی اور آبی آلودگی ، مائکروویو کا بے دریغ استعمال، غیر معیاری فصلیں، گندے پانی کا استعمال خیرہ شدہ اجناس میں پائے جانے والے افلاٹوکسن، تابکار اثرات، الیکٹرو میگنیٹک شعاعیں، وائرل انفیکشنز،وڈ کیمیکلز مثلاً کھانے کے رنگ، جینیاتی طور پر تبدیل کی جانے والی غذائیں، اور ایسی غذائیں ہیں جو بظاہر تو اچھی لگتی ہیں لیکنن کھانے والا اس کے مضر نقصانات سے بے خبر ہوتا ہے، شامل ہیں۔ماہرین کے مطابق غیر متحرک طرز زندگی گزارنا بھی کینسر کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ 30 سال سے کم عمری میں بچوں کی پیدائش اور بچوں کو طویل عرصہ تک اپنا دودھ نہ پلانا بھی بریسٹ کینسر کی ایک وجہ بن سکتی ہے۔

کینسر کی بہت سی اقسام ہیں۔ کینسر کو بننے والے ٹشوز یا آرگن کی وجہ سے نام دیا جاتا ہے جس طرح برین کینسر دماغ میں جبکہ بریسٹ کینسر چھاتی میں جنم لیتا ہے۔ کینسر سیلز کو 5 اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1۔ کارسینوما:

یہ کینسر ایپیتھیلیئل سیلز سے جنم لیتا ہے جو کہ جلد سمیت مختلف آرگن میں پائی جاتی ہے۔ لہذا گردے کی ٹیوبیولز سے جنم لینے والا اور جلد کی اپیتھیلیم سے جنم لینے والے ٹیومرز درحقیقت ایک ہی طرح کے سیلز سے جنم لیتے ہیں اور انہیں کارسینوما کہا جاتا ہے۔تمام کینسرز کا 90 فیصد کارسینوما پر مشتمل ہوتا ہے۔

2۔ سارکوماز:

یہ کنکٹیو ٹشو جیسا کہ ہڈیاں، کارٹیلیج یا مسلز سے جنم لیتا ہے۔ فائبرس ٹشو سے جنم لینے والا کینسر فائبروسارکوما جبکہ ہڈی سے نکلنے والا کینسر اوسٹیوسارکوما کہلاتا ہے۔

3۔ لمفوما:

یہ کینسر لمفیٹک سسٹم کے سیلز سے جنم لیتا ہے۔ اس سسٹم میں تلی، لمف نوڈز، تھائمس گلینڈ اور بون میرو شامل ہے۔

4۔ لوکیمیا:

لوکیمیا یا بلڈ کینسر بنیادی طور پر بون میرو کا کینسر ہے۔ بون میرو بلڈ سیلز بناتا ہے جن میں وائٹ بلڈ سیلز، ریڈ سیلز اور پلیٹلیٹس شامل ہیں۔

5۔ مائلوما:

بون میرو میں موجود پلازما سیلز کے کینسر کو مائلوما کہتے ہیں۔ پلازما سیلز اینٹی باڈیز بنا کر ہمیں انفیکشنز سے روکتے ہیں۔

کینسر کی ادویات بھارت سے منگوانی پڑتی ہیں کیونکہ امریکا و یورپ میں کینسر کی ادویات بھارت کے مقابلے میں دس سے بیس گناہ مہنگی ہیں۔ لیکن بھارت سے منگوانے میں مسئلہ یہ ہے کہ معیار کی سو فیصد گارنٹی نہیں ہوتی۔ تو وہاں سے اچھی کوالٹی کی بھی دوائیں منگوائی جا رہی ہیں اور غیر معیاری ادویات بھی امپورٹ کی جاتی ہیں۔پاکستان کی فارما کمپنیز یہ چاہتی ہے کہ یہاں بھی یہ ادویات بنائی جائیں لیکن اس کے لئے اسے مشینری، خام مال اور دوسری اشیاء پر سسبڈی دینی ہوگی۔ ملک میں ادویات بنانے کی چھ سو سینتالیس فیکڑیاں ہیں۔ لیکن پچاس کمپنیوں کے پاس ستر سے اسی فیصد مارکیٹ شیئر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ کینسر جیسے مہلک مرض کے علاج کے لئے لوگوں کو بھیک نہ مانگنا پڑے۔

کینسر کے متعلق آگاہی، درست معلومات اور علم کے ذریعے کینسر کی ابتدائی علامات پہچاننے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس جان لیوا بیماری کے حوالے سے پائے جانے والے خوف اور غلط فہمیوں کو درست معلومات کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے تمام ممالک میں قومی سطح پر رائج کیے جانے والے صحت کے پروگراموں کو مؤثر اور لوگوں کی دسترس کے قابل بنانا ضروری ہے۔ یہ بات خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے کہ کینسر کے مریضوں میں سے ایک تہائی افراد کو بچایا جاسکتاہے۔ اس بات سے ہمیں تقویت ملتی ہے کہ ہم کینسر کے انسداد اور اس کےخطرے کو کم کرنے کے لیے اپنی سعی کرتے رہے ہیں۔ یہ ہی اس دن کا مقصد ہے۔

سندس رانا، کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں