غزل : ظلم اور جہالت پر چُپ نہیں رہا کیجے

ظلم اور جہالت پر چُپ نہیں رہا کیجے
جتنا کہنا آتا ہے اُتنا تو کہا کیجے

یا تو توڑ دیجے منہ ظلم اور جہالت کا
یا اِسی طرح یونہی ظلم کو سہا کیجے

آپ کتنے سیدھے ہیں،آپ کتنے سادے ہیں
آپ سے گزارش ہے باخبر رہا کیجے

آپ کی محبت میں رُسوا ہورہے ہیں ہم
آپ میری آنکھوں سے روز مت بہا کیجے

آپ کو پتا ہے ناں، آپ کی طلب میں ہوں
آپ ہی تو کہتے تھے پیار بے بہا کیجے

آپ کو اجازت تھی، آپ کو اجازت ہے
بے وفائی کیجے اور اُس کی انتہا کیجے

شاعر:صفدؔر

اپنا تبصرہ بھیجیں