توہین عدالت کیس،عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں 22 ستمبر کو عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سابق وزیراعظم ( Former Prime Minister ) اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) ( PTI ) کے چیئرمین عمران خان ( Imran Khan ) کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ ( Islamabad High Court ) ميں ہوئی۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ ( چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار) نے کی۔

عمران خان اس کیس میں دوسری بار عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ گزشتہ سماعت میں دیئے گئے عدالتی حکم کے تحت عمران خان کی جانب سے دوبارہ جواب جمع کرایا گیا۔

حامد خان نے کہا کہ ہم اس معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں یہی استدعا کی ہے، عدالت نے سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کا حوالہ دیا تھا، عدالت نے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کیس کا حوالہ دیا تھا، عدالت نے پوچھا تھا ان دو کیسز سے ہمارا کيس کيسے مختلف ہے، میں نے ان دو کیسز اور فیصلوں سے ہمارے کیس کو مختلف بتایا ہے۔

چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دینے کا ایک مقصد تھا، توہین عدالت مختلف قسم کی ہوتی ہے، ہم نے یہ کیس عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے پر شروع نہیں کیا، کریمنل توہین عدالت کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی ہے، جس پر عمران خان کے وکیل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں یہی استدعا کی ہے۔

اس پر چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا آپ کا حتمی جواب آیا ہے جس کو ہم نے پڑھا ہے، آپ کو یہ چیزسمجھائی تھی کہ یہ معاملہ کریمنل توہین عدالت کا ہے، زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، آپ کا جواب ہم نے پڑھ لیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے ماننے کے ہم پابند ہیں۔

دوران سماعت عدالت نے حامد خان کو سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی۔ حامد خان نے عدالتی ہدایت پر متعلقہ پیراگراف پڑھ کر سنا دیئے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کرمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کرمنل توہین میں آپ کوئی توجیہہ پیش نہیں کرسکتے، ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں، اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ کرمنل توہین میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا مقصد کیا تھا، آپ کو پچھلی بار بھی ہم نے سمجھایا تھا، کیا کوئی سابق وزیراعظم کہہ سکتا ہے اسے قانون کا پتہ نہیں تھا؟ آج سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو عوامی مقامات پر برا بھلا کہتے ہیں، خاتون جج کے ساتھ بھی ایسا ہوتا تو کون ذمہ دار تھا ؟ آپ نے اپنے جواب میں اپنے کئے کا جواز دینے کی کوشش کی۔

اس دوران حامد خان نے معزز عدالت کے روبرو اپنے جواب میں کہا کہ جواز نہیں، وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے، جواباً چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سابق وزیراعظم لاعلمی کا عذر پیش کر سکتے ہیں؟ معاملہ انتہائی سنگین ہے جس کا احساس نہیں ہوا، ہم نے صرف قانون کو دیکھنا ہے، اس معاملے میں کرمنل توہین کا ذکر نہیں تھا۔

پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس بابر ستار نے حامد خان کو شوکاز نوٹس پڑھنے کی ہدایت کی۔ بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ شوکاز نوٹس میں یہ بات موجود ہے، آپ شوکاز نوٹس کا جواب دے رہے ہیں، شہباز گل پر تشدد کا ذکر کرتے وقت آپ نے مبینہ تشدد کا لفظ بھی نہیں لکھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کیا یہ فیصلے عدالتوں میں ہوں گے یا جلسوں میں؟ جس پر عمران خان کے وکیل نے عدالت کو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ تشدد کا ہمارا اپنا تاثر تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے آپ اس کیس کو لڑنا چاہتے ہیں، ہم بہت محتاط تھے احساس تھا کہ 70سال میں جوہوا اچھا نہیں ہوا، یہی الفاظ سپریم کورٹ کے جج سے متعلق ہوتے تو یہی جواب دیتے؟ اسی لئے ہم کہتے ہیں ماتحت عدلیہ کا احترام ہونا چاہیے۔

ایک موقع پر حامد خان نے کہا کہ خاتون جج کے احساسات مجروح ہوئے تو افسوس ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جج کے احساسات نہیں ہوتے، یہ ضلعی عدلیہ کے احترام کا معاملہ ہے۔ آپ کے جواب کے بعد بھی خاتون جج کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر موجود ہے، کل وہ کہیں موٹر وے پر جاتے رکیں گی اور کوئی نقصان ہو سکتا ہے، کوئی بھی وہاں ان کے ساتھ نامناسب سلوک کر رہا ہوگا، آپ کے جواب کے بعد بھی خاتون جج کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر موجود ہے۔ سیاسی لیڈر عوام میں کھڑا ہوکر قانونی کارروائی کی دھمکی کیسے دے سکتا ہے؟۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ سیکشن 9 پڑھیں، اس میں لیگل ایکشن کا طریقہ دیا گیا ہے، فورمز قانون میں بتائے گئے ہیں، فورم پبلک میٹنگ نہیں ہے، بات جاری رکھتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم عمران خان کا بیان دوبارہ چلا دیتے ہیں۔

جس پر حامد خان نے کہا کہ عدالت یہ سمجھتی ہے خاتون جج کو خطرہ ہے، ہم یقین دلاتے ہیں خاتون جج کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔

ایک موقع پر جسٹس بابر نے کہا کہ متنازع تقریر والے جلسے کے بعد کا کنڈکٹ بھی دیکھ لیں، ایک اور تقریر میں پھر اس تقریر کا جواز پیش کیا گیا، عمران خان نےجو کہا وہ مسلسل اس کا جواز بھی دے رہے ہیں، کیا عمران خان جواب میں ایک فئیر ٹرائل کا مطالبہ کر رہے ہیں، جواب سے تو یہی لگتا ہے وہ ٹرائل میں ثابت کرنا چاہتے ہیں غلط نہیں کیا۔

دوران سماعت عمران خان نے متعدد مرتبہ روسٹرم پر خود آکر فاضل جج صاحبان کو مطمئن کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں