غزل : جو حقیقتیں ہیں حیات کی کبھی غور ان پہ کیا کرو

جو حقیقتیں ہیں حیات کی کبھی غور ان پہ کیا کرو
یہ تو روزوشب کا فریب ہے اسے زندگی نہ کہا کرو

جو طلب کبھی کسی شے کی ہو تو عجب نہیں کہ دعا کرو
وہ خدا سمیع و بصیر ہے جو بھی حاجتیں ہوں کہا کرو

یہ مصیبتیں،یہ اداسیاں بڑی جان لیوا ہیں دوستو!
بڑا تلخ ہے یہ معاشرہ مِری مانو ہنستے رہا کرو

ہمیں کیا خبر ہے کہ کس گھڑی زباں جنبشوں سے نکل پڑے
توزباں میں جب تک ہیں جنبشیں اُسی رب کی حمد و ثنا کرو

وہ اداسیوں کی طویل شب جو امید ِدل بھی اُجاڑ دے
نہ کبھی کسی کا نصیب ہو یہ خلوصِ دل سے دعاکرو

کیا خبر دوبارہ نہ مل سکو کہ بھروسا کیا ہے حیات کا
تو ملو! ہمیشہ خلوص سے کبھی جب کسی سے ملا کرو

یہ کہاں خدا کو قبول کہ،کوئی دل دُکھے تو اے دوستو!
نہ کسی کہ عیب عیاں کرو،نہ کبھی کسی پہ ہنسا کرو

جہاں تیرگی ہو عروج پر، نہ ہو روشنی کی امید بھی
وہاں تم اے صفدؔر پُر ضیا سدا مثلِ شمع جلا کرو

صفدر علی صفدؔر

اپنا تبصرہ بھیجیں