اسلام آباد: سپریم کورٹ نے رحیم یار خان میں مندر حملے کے ملزمان کی فوری گرفتاری کے ساتھ ملزمان سے ہی مندر بحالی کے اخراجات وصول کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے متاثرہ علاقے میں قیام امن کیلئے ولیج کمیٹی بنانے کی ہدایت کی اور کمشنر رحیم یار خان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔
سپریم کورٹ میں رحیم یار خان میں مندر حملہ کیس کی سماعت ہوئی۔ آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے آئی جی پنجاب انعام غنی اور چیف سیکرٹری کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ مندر پر حملہ ہوا، انتظامیہ اور پولیس کیا کر رہی تھی ؟ جس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ اے سی اور اے ایس پی موقع پر موجود تھے، انتظامیہ کی ترجیح مندر کے آس پاس ہندو گھروں کا تحفظ تھا۔
عدالت نے کہا کہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کام نہیں کر سکتے تو ہٹا دیں۔ آئی جی پنجاب انعام غنی نے عدالت کو بتایا کہ مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ایک بچے کی وجہ سے یہ سارا واقعہ ہوا، اس واقعہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی، پولیس نے ماسوائے تماشہ دیکھنے کے کچھ نہیں کیا۔
جسٹس قاضی امین نے آئی جی پنجاب انعام غنی سے استفسار کیا کہ کیا کوئی گرفتاری کی گئی ؟ جس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے بھی معاملے کا نوٹس لیا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ واقعہ کو 3 دن ہو گئے، ایک بندہ نہیں پکڑا گیا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پولیس کی ندامت دیکھ کر لگتا ہے پولیس میں جوش، ولولہ نہیں، پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوئی۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے بتایا کہ بے لگام سوشل میڈیا مسئلے کی بنیادی وجہ ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ زیادہ تر حملہ آور کچے کے علاقہ سے آئے تھے۔ آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ مسجد، امام بارگاہ اور مندر ساتھ ساتھ ہیں، متاثرہ علاقوں میں حالات آئیڈیل تھے، کبھی بد امنی نہیں ہوئی۔
سپریم کورٹ نے شرپسندی پر اکسانے والوں کیخلاف بھی کارروائی کا حکم دیتے ہوئے آئی جی پنجاب انعام غنی اور چیف سیکرٹری پنجاب سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔