ٹوکیو پیرالمپکس: پاکستان کے حیدر علی گولڈ میڈل کیلئے پر عزم

جاپان کے شہر ٹوکیو میں کورونا وائرس کوویڈ 19 کے پھیلاؤ کے باوجود کھیلوں کے سب سے بڑے عالمی میلے اولمپکس کے انعقاد کے بعد 24 اگست سے ایک اور اسپورٹس ایونٹ پیرالمپکس کا آغاز ہو رہا ہے جس میں پاکستان سمیت دنیا 162 ملکوں کے 4400 ایتھلیٹس مختلف مقابلوں میں 5 ستمبر تک اپنی صلاحیتوں کا اظہار کریں گے اور میڈلز کے حصول کیلئے جدوجہد کریں گے۔

پانچ ممالک بھوٹان‘ گیانا‘ پیرا گوئے‘سینٹ ونسینٹ اینڈ دی گرنیڈینز اور مالدیپ پہلی مرتبہ شرکت کر رہے ہیں۔ ان پانچ ملکوں کو انٹرنیشنل پیرالمپک کمیٹی کے این پی سی ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت یہ موقع فراہم کیا گیا تھا۔

اس بار پیرالمپکس میں شرکت کرنے والے دستوں کی تعداد ریو پیرالمپکس 159 سے تین زیادہ ہے۔ جبکہ لندن پیرالمپکس 2012 میں ریکارڈ164 دستوں نے شرکت کی تھی۔

اس ایونٹ میں ریفیوجیز کی ٹیم بھی حصہ لے رہی ہے۔ واڈا کی پابندی کی وجہ سے روس کے پیرا ایتھلیٹس بھی اسی پرچم تلے کھیلوں میں حصہ لیں گے۔ 24 ممالک سے دستے کرونا وائرس‘ سفری مشکلات‘ حکومتوں کی محدود سپورٹ اور ایتھلیٹس کی عدم دلچسپی سمیت مختلف وجوہ کی بنا پر شرکت نہیں کر رہے ہیں ورنہ ٹوکیو پیرالمپکس میں شرکا کی ریکارڈ تعداد ہوتی۔

انٹرنیشنل پیرالمپک کمیٹی (آئی پی سی) دنیا بھر میں معذور افراد کو کھیلوں کی مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرتی ہے اور اس بڑے ایونٹ کے انعقاد کے ذریعے انہیں اس میں شمولیت کی دعوت دیتی ہے تاکہ ان میں بھی مقابلہ کرنے کا رجحان فروغ پائے۔ روایتی طور پر اولمپکس کے بعد پیرالمپکس کا انعقاد ہوتا ہے اور اس بار کرونا پینڈامک کی وجہ سے یہ ایونٹ بھی ایک سال تاخیر کا شکار ہوا۔

ان کھیلوں میں معذوروں کی مختلف کٹیگریز رکھی جاتی ہیں اور اولمپک گیمز کی کوالی فیکشن کی طرح اس کیلئے بھی ایتھلیٹس ریجنل مقابلوں میں کارکردگی اور مقررہ معیار کی بنیاد پر کوالیفائی کرتے ہیں۔

جاپان میں کرونا کیسز میں اضافے کی وجہ سے پیرالمپکس میں بھی شائقین معذور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے موجود نہیں ہوں گے۔ انتہائی سخت رولز اور حفاظتی انتظامات میں ٹوکیو پیرالمپکس 2021 کی مشعل روشن کر دی گئی ہے۔

ٹوکیو پیرالمپکس میں 22 اسپورٹس کے 539 ایونٹ ہوں گے۔ بیڈمنٹن اور تائی کوانڈو کو پیرالمپک گیمز میں پہلی مرتبہ شامل کیا گیا ہے۔ دو ہفتے جاری رہنے والے اس پیرالمپک گیمز میں ٹریک اینڈ فیلڈ‘ پیراکی‘ تیر اندازی‘ گھڑ سواری ایونٹس‘ کشتی رانی‘ جوڈو‘ پاور لفٹنگ‘سائیکلنگ‘ایکوسٹرین‘ فٹبال‘ گول بال‘ پیرا کنوئی‘ پیرا ٹرائی تھیلون‘ شوٹنگ‘ سٹنگ والی بال‘ ٹیبل ٹینس اور وہیل چیئر باسکٹ بال‘ وہیل چیئر رگبی‘ وہیل چیئر فینسنگ‘ وہیل چیئر ٹینس میں کھلاڑی اپنے جوہر دکھائیں گے۔

پیرالمپکس میں سب سے بڑا دستہ میزبان ملک جاپان کا ہے جو 260 کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ چینی دستہ 255‘ امریکی دستہ 242‘ بھارتی دستہ 54 کھلاڑیوں پر مشتمل ہے کئی ملکوں نے صرف ایک ایک کھلاڑی پیرا ایتھلیٹ بھیجا ہے۔

جاپان کو اولمپک کیمز کی طرح پیرالمپک میں بھی زیادہ تعداد میں میڈلز جیتنے کی امید ہے۔پاکستانی دستے میں ایک مرد اور ایک خاتون ایتھلیٹ شامل ہے۔

پاکستان کے پیرا لمپک ایتھلیٹ حیدر علی اور انیلہ عزت بیگ ڈدسکس تھرو کے ایونٹس میں حصہ لیں گے۔ انیلہ بیگ پہلی مرتبہ پیرالمپکس میں شرکت کر رہی ہیں جبکہ حیدر علی اس سے قبل دو پیرا لمپکس بیجنگ 2008 اور ریو 2016 میں شرکت کا تجربہ رکھتے ہیں جبکہ وہ بیماری کی وجہ سے لندن پیرالمپکس میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔ دونوں کھلاڑی پاکستان کیلئے میڈل جیتنے کیلئے پر عزم ہیں۔

حکومت پاکستان اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کی جانب سے ان دونوں پیرا ایتھلیٹس کو کوئی سپورٹ فراہم نہیں کی گئی۔ فنڈر کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کی ٹوکیو روانگی کھٹائی میں پڑ گئی تھی لیکن آخری لمحات میں پنجاب کے وزیر امور نوجوانان و کھیل رائے تیمور خان بھٹی نے دل چسپی لیتے ہوئے حیدر علی‘ انیلہ بیگ اور کوچ ڈاکٹر فاطمہ کے سفری اخراجات برداشت کیے اور دونوں ایتھلیٹ کوچ ڈاکٹر فاطمہ کے ساتھ روانہ ہوئے تاہم حیدر علی کے کوچ اکبر مغل ساتھ نہیں جا سکے۔

پاکستان کا وزیر اعظم ایک اسپورٹس مین ہے لیکن یہ المناک صورت حچال ہے کہ پیرالمپک میں شرکت کرنے والے پاکستانی دستے کیلئے کوئی فنڈز دستیاب نہیں تھے پاکستان اسپورٹس بورڈ نے پاکستان کی نیشنل پیرالمپک کمیٹی کو مدد فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا اور نیشنل پیرالمپک کمیٹی کی کوششوں کے باوجود دو معذور کھلاڑیوں اور ان کے کوچز کیلئے کوئی اسپانسر شپ بھی نہیں مل سکی۔

ملک میں کتنے ہی بڑے نیشنل اور ملٹی نیشنل ادارے ہیں لیکن کوئی بھی ان کی مدد کیلئے اس لیے آگے نہیں بڑھا کیونکہ ان کے خیال میں اس سے ان کو کوئی شہرت نہیں ملتی۔

حیدرعلی کو ٹوکیو پیرالمپکس میں کافی امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ ان کا ماضی کا ٹریک ریکارڈ بہت اچھا ہے۔ وہ ڈیکس تھرو کی ایف 37 کیٹیگری میں حصہ لیں گے۔ انہوں نے 2016 کے ریو پیرا لمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ حیدرعلی نے بیجنگ چین میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2019 کے دوران گولڈ میڈل اپنے نام کیا تھا۔ وہ انڈونیشیا میں اتھلیٹکس پیرا گیمز 2018 میں بھی گولڈ میڈل جیت چکے ہیں۔ حید علی نے 2008 کے بیجنگاولمپکس میں لانگ جمپ میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔

انہیں پیرالمپکس میں میڈل جیتنے والے پہلے پاکستان کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے ہمسٹرنگ انجری کی وجہ سے لندن اولمپکس 2018 میں شرکت نہیں کی تھی۔ برازیل میں ہونے والے ریو اولمپکس 2016 میں حیدر علی لانگ جمپ میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا لیکن لانگ جمپ میں انجریز کی وجہ سے حیدر علی نے لانگ جمپ کو خیر باد کہہ کر ڈسکس تھرو پر مکمل توجہ مرکوزکر دی تھی۔

انیلہ بیگ نے دبئی میں ورلڈ پیرا ایتھلیٹکس چیمپئن شب 2019 میں ڈسکس تھرو میں چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی جس کی بنیاد پر ٹوکیو پیرالمپکس کیلئے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ انیلہ عزت بیگ پسماندہ گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔

تین سال کی عمر میں وہ پولیو کا شکار ہوئی تھیں جس کے اثرات ان کی ٹاگوں پر پڑے تھے۔ جب وہ ہائی سکول میں زیر تعلیم تھیں تو انہوں نے اپنے والد سے کھیلوں میں حصہ لینے کی اجازت طلب کی تھی۔

وہ 2008 میں انٹر ڈسٹرکٹ اسپورٹس گیمز میں حصہ لے رہی ھیں تو ان کی کارکردگی سے مدثر بیگ کافی متاثر ہوئے تھے اور انہوں نے انیلہ کو 2009 میں ٹوکیو جاپان ممیں ہونے والی ایشین یوتھ پیرا گیمز کیلئے قومی ٹیم کا حصہ بننے کی پیش کش کی تھی جو انہوں نے قبول کر لی تھی۔ انیلہ علی ڈسکس تھرو میں کیٹیگری ایف 64 میں حصہ لیں گی۔

دبئی میں منعقدہ ورلڈ پیرا ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کے ڈسکس تھرو ایونٹ میں پاکستانی ایتھلیٹ حیدر علی نے چاندی کا تمغہ جیتا تھا اور اسی بنیاد پر وہ ٹوکیو پیرالمپکس کیلئے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

34 سالہ حیدر علی کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور وہ کھیلوں کی وجہ سے پاکستان واپڈا سے منسلک ہیں۔ حیدر علی دائیں ٹانگ پیدائشی طور پر بائیں ٹانگ سے دو انچ پتلی اور ایک انچ چھوٹی ہے لیکن وہ اپنے اس پیدائشی نقص پر کبھی پریشان یا میوسی کا شکار نہیں ہوئے اور نہہی انہوں نے اسے غم جاں بنایا بلکہ وہ معاشرے کے دیگر افراد کی طرح زندگی کو بھرپور انداز میں انجوائے کر رہے ہیں۔

انہوں نے بچین ہی سے کھیلوں میں دل چسپی لینا شروع کی تھی۔ اور اب وہ نامساعد حالت اور سہولتوں کے فقدان کے باوجود جسمانی طور پر معذور افراد کیلئے مخصوص کھیلوں میں بین الاقوامی سطح پر حصہ لے کر اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں اور انہیں اپنی کامیابیوں پر بجا فخر ہے۔

حیدر علی کا کہنا ہے کہ اسپورٹس معذور افراد کی بحالی اور ان میں مثبت سوچ پروان چڑھانے کا بڑا ذریعہ ہے۔ میں شروع سے ہی اس میں دل چسپی لیتا تھا لیکن سنجیدگی سے 2004 میں بھرپور حصہ لینا شروع کیا۔ ان کا توجہ ایتھلیٹکس پر مرکوز تھی اور یوسین بولٹ ان کے فیورٹ ایتھلیٹ ہیں۔ کالج میں تعلیم کے دوران انہیں اسپورٹس کی باقاعدہ تربیت ملی۔ اور وہ اکثر و بیشتر اپنی کلاسز اٹینڈ کرنے کے بجائے لانگ جمپ اور ڈسکس تھرو کی پریکٹس کرتے تھے۔

پاکستان پیرا ایتھلیکٹ ٹیم کے انتخاب کیلئے 2006 میں اسلام آباد میں ٹرائل ہوئے تو وہ اس ٹیم کیلئے منتخب ہو گئے اور اس کے بعد انہوں نے ترقی کا سفر شروع کیا جو ہنوز کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔

وہ دوسرے نارمل ایتھلیٹس کی طرح باقاعدہ ٹریننگ کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ میری تربیت میں کوچ اکبر علی مغل کا انتہائی اہم کردار ہے جو سخت ٹریننگ کرواتے ہیں۔ پاکستان میں پیرا ایتھلیٹس کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تربیت کی سہولتیں حاصل نہیں ہیں اس لیے ہمیں انٹرنیشنل مقابلوں میں غیرملکی کھلاڑیوں کے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود میں ہم ملک کیلے میڈلز جیت کر لاتے ہیں۔

حیدر علی گزشتہ چند برسوں کے دوران فٹنس مسائل کا بھی شکار رہے لیکن انہوں نے کبھی ان مسائل کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا اور جانفشانی کے ساتھ اپنی دھن میں مگن رہے۔

پہلوانوں اور صعنتوں کے حوالے سے مشہور شہر گوجرانوالہ میں انہیں تربیت کیلئے بین الاقوامی معیار کا ٹریک دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں تربیت کیلئے فیصل آباد لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں کا سفر کرنا پڑتا ہے جس میں خاصا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔

حیدر علی نے 2006 میں ملائشیا میں ہونے والے پیرا ایشین گیمز میں سونے کا ایک اور دو چاندی کے تمغے حاصل کیے تھے۔ چین کی پیرا ایشین گیمز 2010 میں انہوں نے ایک سونے اور ایک کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا تھا۔ 2016 میں دبئی میں ایشیا اوشینا چیمپیئن شپ میں حید علی نے سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

گزشتہ سال انڈونیشیا میں پیرا ایشین گیمز میں حید علی دو گولڈ اور ایک برانز میڈل جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ اس سال چین میں منعقدہ گیمزمیں انہوں نے دو گولڈ اور ایک سلور میڈل جیتا تھا۔

حیدر علی کا کہنا ہے کہ میرا ہدف ٹوکیو پیرالمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کرنا ہے اگر قوم کی دعائیں ساتھ رہیں تو میں ڈ اس مقصد میں انشا اللہ کامیاب ہوجاؤں گا.

اپنا تبصرہ بھیجیں