پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے کہا ہے کہ ملک میں 24 فی صد تعلیم یافتہ افراد بیروزگار ہیں ۔بیروزگاری کی یہ شرح دن بدن بڑھتی جارہی ہے، رپورٹ میں اہم امور کی نشاندہی بھی کردی گئی ۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی اور ترقی کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والہ کی صدارت میں ہوا ۔ اجلاس میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے بریفنگ دی ۔
پی آئی ڈی ای کی طرف سے دی گئی بریفنگ میں ملک بھر میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کی ایک سنگین تصویر پیش کی جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے ملک میں اس وقت 24 فیصد تعلیم یافتہ افراد بے روزگار ہیں۔
پی آئی ڈی ای نے بتایا کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو 6.5 فیصد کے حکومتی دعوے کے برعکس ہے۔
کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ ملک بھر میں 40 فیصد تعلیم یافتہ خواتین بے روزگار ہیں۔
پی آئی ڈی ای کی بریفنگ میں یہ واضع کیا گیا کہ یہاں تعلیم یافتہ’ کی اصطلاح سے مراد وہ افراد ہیں جنہوں نے انڈر گریجویٹ یا گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے، جو انہیں نوکری تلاش کرنے کے قابل بناتی ہے۔
پی آئی ڈی ای کے عہدیداروں نے نشاندہی کی کہ کچھ تعلیم یافتہ افراد بہتر روزگار کی تلاش میں بہت جدوجہد کرنے کی وجہ سے ایم فل میں داخلہ لیتے ہیں تاکہ سیکھنے کے عمل کو جاری رکھیں، اس سے بھی بے روزگاری کی شرح کم ہوگئی کیونکہ وہ افراد اعداد و شمار میں شامل نہیں ہیں۔
عہدیداروں کی طرف سے سینیٹ کمیٹی کو بتایا گیا کہ حال ہی میں ایک ہائی کورٹ میں چپڑاسی کی نوکری کے اشتہار کے جواب میں کم ازکم 15 لاکھ افراد نے درخواست دی ہے اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کس قدر حالات خراب ہیں ۔
عہدیداروں کا مزید کہنا تھا کہ اس ملازمت کے لیے درخواستیں دینے والوں میں ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے والے افراد بھی شامل تھے۔
اجلاس میں کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں اور بچوں کے درست اعداد و شمار طلب کرلئے جس کے جواب میں پی آئی ڈی ای حکام نے کہا کہ حکومتی سطح پر کوئی تحقیق نہیں کی جا رہی بلکہ اس طرح کے تمام مطالعے بیرون ملک سے کیے گئے ہیں۔
عہدیداروں کا کہنا تھا کہ نیپرا سمیت اہم بل بھی باہر بیٹھے افراد نے بنائے، ملک میں ریسرچ کے لیے بڑی بڑی عمارتیں بنائی گئی ہیں لیکن ان میں کوئی تحقیق نہیں کی جارہی۔
رواں برس جون میں جاری ہونے والے اقتصادی سروے برائے سال 21-2020 کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کے باعث لگائے گئے لاک ڈاؤنز نے روزگار کی صورتحال پر شدید اثرات مرتب کیے اور تقریباً 2 کروڑ 7 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوئے ۔