نیاپاکستان ہاؤسنگ اسکیم، قرض کیلئے شرائط نرم کرنے پر غور

وفاقی حکومت کی جانب سے ”نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم“ میں قرض کیلئے شرائط نرم اور فارم مزید آسان کیا جارہا ہے، جس کے بعد وہ لوگ جو سخت شرائط اور پیچیدہ فارم کی وجہ سے اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھاسکے تھے وہ بھی بینکوں کی مدد سے اپنے گھر کے مالک بن سکیں گے۔

حکومتی ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق ایک سرکاری افسر کے مطابق سرکاری رہائشی اسکیم کا اصل ہدف کم آمدن طبقہ ہے لیکن کم آمدن افراد کو روزگار اور آمدن کی تصدیق کے حوالے سے بینکوں کے تقاضے پورے کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے جس کو دیکھتے ہوئے نئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، جن میں ایک تو نیا فارم مرتب کیا گیا ہے جو انتہائی سادہ اور ایک صفحے کا ہوگا، اس فارم میں صرف بنیادی معلومات جیسے نام، ولدیت، شناختی کارڈ نمبر اور گھر کا پتہ لئے جائیں گے اور فارم موصول ہونے کے بعد بینک اسسمنٹ کا مرحلہ اہم ہوگا، جس میں بینک اہلکار بجلی کے بل اور رہائشی کرائے کا جائزہ لے کر درخواست کی منظوری دیں گے۔

افسر کا کہنا ہے کہ بنیادی شرائط پورے کرنے والا درخواست کنندہ رکشہ چلانے والا ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ ماہانہ 15 ہزار روپے بچا سکتا ہے تو اس کیلئے 30 لاکھ روپے قرض کی منظوری دیدی جائے گی۔

اسٹیٹ بینک کے ایک افسر نے بھی ان اطلاعات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بینک رسک گائیڈ لائنز کو فالو کرتے ہوئے روزگار اور آمدن کا دستاویزی ثبوت مانگتے ہیں، جس کو ایک ٹھیلا چلانے والا ماہانہ 50ہزار روپے کمانے کے باجود پورا نہیں کر پاتا، کم آمدن طبقہ اکثریت انفارمل سیکٹر سے تعلق رکھتا ہے جس کا بینک اسٹیٹمنٹ اور لون ہسٹری نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ ایک بڑی تعداد کا تو بینک اکاؤنٹ ہی نہیں ہوتا، انہی مشکلات کو دیکھتے ہوئے آسانیاں لائی جارہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے فارم کی منظوری دیدی گئی ہے اور جلد ایک ایس آر او بھی جاری ہونے کی توقع ہے۔

ڈیفنس،کلفٹن ایسوسی ایشن آف ریئل اسٹیٹ ایسوسی ایشن کے صدر زبیر بیگ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان ہاؤسنگ اسکیم میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، محکمہ خزانہ سمیت تمام متعلقہ ادارے متحرک ہیں میٹنگز ہورہی ہیں اور بلڈرز و ریئل اسٹیٹ کے نمائندوں سے بھی مشاورت کی جارہی ہے، توقع ہے کہ کئی شرائط ختم ہونے سے آنے والے دنوں میں مزید آسانیاں آئیں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا سب سے زیادہ فائدہ کراچی کے شہریوں کو ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی میں بڑے پیمانے پر ایسے پراجیکٹس ہیں جو مکمل ہیں لیکن بلڈرز نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے کمپلیشن (تکمیل) سرٹیفیکٹ حاصل نہیں کئے، ان پراجیکٹس میں فلیٹ خریدنے کیلئے شہری بینک جاتے تھے تو ان کی درخواستیں مسترد ہوجاتی تھیں، اب انہیں زیر تعمیر رہائشی پراجیکٹس کی ضمن میں پرانی بلڈنگز میں بھی فلیٹوں کیلئے قرض مل سکے گا۔

حکومتی نیا پاکستان رہائشی اسکیم کا آغاز 2018ء میں ہوا تھا، جس کے ذریعے 50 لاکھ کم آمدن افراد کو رہائشی سہولیات فراہم کرنا مقصد ہے۔اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اسکیم کے آغاز سے گزشتہ ماہ اگست تک مجموعی طور پر 154 ارب روپے قرض کیلئے درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جس میں 60 ارب روپے کی منظوری دی گئی اور 11.5 ارب روپے جاری بھی کردیئے گئے ہیں، رواں سال اگست میں قرض اجراء کی شرح جولائی سے 49 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔

ایف بی آر کے 10 ستمبر کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک 1321 افراد نے آن لائن سسٹم کے تحت 2125 منصوبے رجسٹرڈ کرائے، جس کی مالیت 493 ارب روپے بنتی ہے، رجسٹرڈ منصوبوں میں 1775 نئے منصوبے شامل ہیں جبکہ پہلے سے موجود منصوبوں کی تعداد 350ہے۔

حکومتی افراد کا کہنا ہے کہ رہائشی اسکیم کا دائرہ بڑھ رہا ہے، جس کی دلیل کے طور پر وہ اگست میں بینک قرض میں 49 فیصد اضافے کا حوالہ دیتے ہیں تاہم بلڈرز اور عام شہری مزید مؤثر حکومتی اقدامات کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کے سابق چیئرمین آصف سم سم کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی رہائشی اسکیم سے کراچی کے بلڈرز دیگر شہروں کی طرح فائدہ نہیں اٹھاسکے، اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی شہروں میں پراجیکٹ منظوری میں ڈیڑھ سے 2 ماہ لگتے ہیں جبکہ کراچی میں منظوری میں 2 سال تک لگ جاتے ہیں، اس لئے ایمنسٹی اسکیم کراچی کیلئے تھی ہی نہیں، بینک فنانسنگ میں بھی کراچی کے بلڈرز اور شہری زیادہ فائدہ نہیں اٹھاسکے، حکومت کراچی والوں کیلئے مؤثر اقدامات کرے۔

آباد کے سرپرست اعلیٰ محسن شیخانی کا کہنا ہے کہ حکومت کی تعمیراتی شعبے کیلئے اعلان کردہ ایمنسٹی اسکیم 30 جون کو ختم ہوگئی، ہم نے اس میں توسیع کا مطالبہ کیا لیکن آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا، اگر ایمنسٹی میں توسیع ہوجاتی تو مزید پراجیکٹس بھی سامنے آتے۔

محسن شیخانی کے مطابق تعمیراتی میٹریل مسلسل مہنگا ہورہا ہے، جس کی وجہ سے تعمیراتی لاگت بڑھ گئی ہے، حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے

اپنا تبصرہ بھیجیں