پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابرافتخارنے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ارشد شریف کے کینیا میں قتل سے متعلق اہم سوال صحافیوں اور قوم کے سامنے رکھے۔
ارشد شریف کے قتل کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پرکیے جانے والے پروپیگنڈہ اور پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”دیکھنا ہوگا کہ مرحوم ارشد شریف کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے حقائق کیا ہیں“۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق 5 اگست 2022 کو خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے اے آر وائی کے اینکر ارشد شریف کے حوالے سے تھریٹ جاری کیا گیا، ہماری اطلاع کے مطابق یہ تھریٹ الرٹ وزیراعلیٰ کی خاص ہدایت پر جاری کیا گیا جس میں شبہ ظاہرکیا گیا کہ افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی گروپ نے اسپن بولدک میں ایک میٹنگ کی ہے جو کہ ارشد شریف کوراولپنڈی اورملحقہ علاقوں میں ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت یا پھرسیکیورٹی اداروں سے مزید کسی قسم کی معلومات شیئرنہیں کی گئیں کہ یہ اطلاع کیسے اور کس نے خیبرپختونخوا حکومت کو فراہم کی کہ ارشد شریف کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ اس سے ظاہریہ ہوتا ہے کہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا جس کا مقصد ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پرآمادہ کرنا تھا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے لیکن انہیں بار بار یہ باور کرایا جاتا رہا کہ انہیں خطرہ لاحق ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل بابرافتخارنے پریس کانفرنس میں مزید بتایا کہ،“ 8 اگست 2022 کو شہباز گل کے اے آر وائی چینل پر فوج میں بغاوت پراکسانے کے متنازع بیان کی تمام مکاتب فکرنے مذمت کی اور اسے ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف قراردیا، 9 اگست کو شہباز گل کو گرفتارکیا گیا، اس متناز ٹرانسمیشن کے حوالے سے جب اے آروائی کے نائب صدرعماد یوسف سے تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال نے شہبازگل کی گرفتاری کے فوری بعد عماد یوسف کو ہدایات دیں کہ ارشد شریف کو جلد از جلد پاکستان سے باہر بھیج دیا جائے“۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق اس کے جواب میں عماد یوسف نے انہیں بتایا کہ ارشد شریف پشاور سے دبئی کیلئے روانہ ہوں گے، پھر اس حوالے سے متواتر ایک بیانیہ بنایا جاتا رہا، کہ ارشد شریف وک بیرون ملک قتل کردیا جائے گا۔ 9 اگست 2022 کو 4 بج کر 40 منٹ پرکراچی سے ارشد شریف کی دبئی روانگی کیلئے ٹکٹ بک کی گئی جو کہ اے آر وائی گروپ کے اسسٹنٹ منیجر اور پلاننگ ایڈمنسٹریشن مسٹر عمران کے کہنے پر فضل ربی نامی ٹرویل ایجنٹ نے ساڑھے 5 لاکھ روپے وصول کرنے کے بعد بک کی۔
ٹریول پلان کے مطابق 9 ستمبر 2022 کوارشد شریف کو پاکستان واپس آنا تھا، 10 اگست کوارشد شریف پشاور کے باچا خان ائرپورٹ سے ایمرٹس انٹرنیشنل کی پرواز ای کے 637 کے ذریعے صبح 6 بج کر 10 منٹ ہر دبئی کے لیے روانہ ہوئے،اس دوران انہیں کے پی حکومت نے مکمل پروٹوکول فراہم کیا۔ انہیں چیف منسٹر سیکرٹیریٹ کے پروٹوکول آفیسرعمر گل آفریدی نے گرین نمبر پلیٹ ڈبل کیبن میں ائر پورٹ پہنچایا، چیف منسٹر سیکرٹیریٹ کے پی کے اسٹاف نے ہی تمام کاؤنٹرزپر ارشد شریف کی معاونت کی اور انہیں فلائٹ تک پہنچایا۔
لیفٹیننٹ جنرل بابرافتخار نے کہا کہ اداروں کی جانب سے ارشد شریف کو روکنے کی کسی بھی قسم کی کوشش نہیں کی گئی، اگر حکومت انہیں روکنا چاہتی تو ایف آئی کے ذریعے ایسا کرسکتی تھی۔ ارشد شریف ویزے کی مدت تک متحدہ عرب امارات میں رہے اور دبئی کا ویزہ ایکساپئر ہونے کے بعد کینیا روانہ ہوئے، ہماری اطلاع کے مطابق سرکاری سطح پرکسی نے بھی ارشد شریف کو دبئی سے نکلنے پرمجبورنہیں کیا تو وہ کون تھے جنہوں نے انہیں دبئی سے وہاں جانے پر مجبور کیا، اس سوال کا جواب دینا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں یہ سوال بھی اٹھتے ہیں متحدہ عرب امارات روانگی سے متعلق دستاویزی معاملات کو کس نے سرانجام دیا؟۔
متحدہ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام وطعام کا بندوبست کون کررہاتھا؟۔
کس نے انہیں مسلسل یہ باور کرایا کہ وہ پاکستان واپس نہ آئیں ورنہ انہیں مار دیا جائے گا؟۔
کس نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی جان بیرون ملک خاص کر کینیا جیسے ملک میں محفوظ ہے؟۔
ترجمان پاک فوج نے واضح کیا کہ ایک بیانیہ یہ بھی بنایا جارہا ہے کہ جب ارشد شریف کو دبئی سے نکلوایا گیا تو صرف کینیا ہی وہ ویزہ فری ملک تھا جہاں وہ انٹری لے سکتے تھے، حالانکہ دنیا میں کم ازکم 34 ایسے ممالک ہیں جہاں پر ویزہ فری انٹری موجود ہے۔
ارشد شریف کیونکر کینیا پہنچے اوران کی میزبانی کون کررہا تھا؟۔
ن کا پاکستان میں کس کس سے رابطہ تھا؟ ۔
ارشد شریف کی قفات سے منسلک کردار وقار احمد اور کرم احمد کون ہیں؟۔
ان کا ارشد سے کیا رشتہ تھا؟ کیا ارشد انہیں پہلے سے جانتے تھے یا کسی نے یہ رابطہ استوار کرایا تھا؟۔
کچھ لوگوں نے ارشد شریف کے لندن میں ملاقات کے دعوے بھی کیے ، وہ دعوے ان سے کس نے کروائےاور وہ دعوے کن بنیادوں پر کیے گئے؟ ۔
کیا یہ دعوے بھی فیک نیوز اورڈس انفارمیشن کیمپین کا حصہ تھے؟ ۔
ارشد شریف کی وفات ایک دور افتادہ علاقے میں ہوئی اورکینیا کی پولیس نے تو انہیں پہچانا ہی نہیں تھا، تو ان کی وفات کی خبر کس نے اور کس کو سب سے پہلے دی؟
انہوں نے کہا کہ کینیا کی پولیس اورحکومت نےاس کیس میں اپنی غلطی کو تسلیم کیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کیا یہ واقعی غلط شناکت کا معاملہ تھا یا ٹارگٹ کلنگ تھی؟ ۔بہت سے سوالات جواب طلب ہیں اور اس افسوسناک واقعے کی غیرجانبدار صاف وشفاف تحقیقات بہت ضروری ہیں جس کے لیے ہم نے حکومت سے اعلیٰ سطح کے تحقیقاتی کمیشن کی استدعا کی ہے۔اس کمیشن میں اگر بین الاقوامی ماہرین، فارنزک اور اقوام متحدہ کے نمائندوں/ماہرینکی ضوررت ہو تو انہیں بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق،”ان تمام حالات وواقعات میں اے آروائی کے چیف ایگزیکٹو آفیسرسلمان اقبال کا ذکرباربارآتا ہے، لہذا انہیں پاکستان واپس لایا جانا چاہیے اور شامل تفتیش کرنا چاہیے“۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی ناگہانی موت کے فورا بعد سوشل میڈیا پر مخصوص لوگوں نے فوراً الزامات کا رخ فوج کی جانب موڑنا شروع کردیا، یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ اس سفاک موت سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے؟ ارشد شریف کی وفات ایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے جس نے پوری قوم کو رنج وغم میں مبتلا کردیا۔ میں نے اب تک حاصل ہونے والی تفصیلات وواقعات آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں اور اب آپ پرفرض ہے کہ ان تفصیلات کی تہہ تک پہنچیں اور تمام کرداروں کو سامنے لائیں اورحقائق قوم کے سامنے رکھیں۔
ترجمان پاک فوج کی جانب سے مزیدکہا گیا کہ ہم سب کو انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے، حتمی رپورٹ سامنے آنے تک کسی پرالزام تراشی کسی صورت مناسب نہیں ہوگی۔ آپ سے درخواست ہوگی کہ اپنے اداروں پراعتماد رکھیں۔
پریس کانفرنس کے دوران جنرل بابر افتخار نے تصدیق کی کہ فوج کے پاس ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے کچھ معلومات ہیں۔ تاہم انہوں نے کہاکہ وہ معلومات اس شکل میں نہیں ہیں کہ انہیں سب کے سامنے رکھا جائے گا۔
انہوں نے یہ بار بار یہ بھی کہاکہ تحقیقات پر اعتراضات اٹھنے کے پیش نظر ہی پہلے ہی فوجی قیادت نے فیصلہ کیا کہ تحقیقاتی کمیٹی میں آئی ایس آئی یا ایم آئی کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہوگا اور اسی بنا پر آئی ایس آئی کے نمائندے کو کسی اعتراض سے پہلے ہی نکال لیا گیا۔