پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج محنت کشوں کا دن منایا جا رہا ہے۔
یہ دن حقوق کے لیے جان کی قربانی دینے والے ان مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہےجنہیں 1886 میں امریکی شہر شکاگو میں حقوق کی آواز بلند کرنے پر ابدی نیند سلا دیا گیا تھا۔
آج سے 136 سال پہلے 1886 میں امریکی شہر شکاگو میں مزدوروں نے کم اجرت کے خلاف اور اوقات کار 8 گھنٹے مقرر کرنے کے مطالبات رکھ کر سرمایہ داروں کے خلاف احتجاج کیا، مکمل ہڑتال کی اور صنعتی پہیے کو بریک لگا دیا۔
سراپا احتجاج مزدوروں کا مطالبہ تھا کہ ہم 8 گھنٹے کام، 8 گھنٹے آرام اور 8 گھنٹے اہلخانہ کے ساتھ گز ارنا چاہتے ہیں، یہ مطالبہ جائز تھا مگر اسے دبانے کے لیے احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کا خوفناک استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں کئی مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مزدور رہنماؤ ں پر سنگین مقدمات قائم کیے گئے، بعد ازاں صنعتی اصلاحات ہوئیں مگر طویل عرصہ گزرنے کے باوجود مزدوروں کے مسائل آج بھی “ہر بلاول ہے دیس کا مقروض، پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے” والی تصویر پیش کر رہے ہیں۔
ریلوے ورکرز یونین کے چیئرمین منظور احمد رضی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نجی شعبے میں آج بھی 12 اور14 گھنٹے تک کام لیا جاتا ہے، یہی نہیں مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور کم اجرت نے مزدوروں کو غربت ہی نہیں بلکہ زندگی کی لکیر سے بھی نیچے دھکیل رکھا ہے۔
مزدور رہنماؤں کے مطابق نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں محنت کشوں کو آج بھی صحت کی سہولتوں سمیت سوشل سکیورٹی تک دستیاب نہیں ساتھ ہی حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت کے اعلان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
مزدور رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ قومی ، صوبائی اسمبلیوں سمیت سینیٹ میں محنت کشوں کی نمائندگی کے بغیر مزدوروں کے مفاد میں قانون سازی نہیں کی جا سکتی اور تمام سیاسی جماعتوں کو مزدوروں کے لیے مخصوص نشستیں مختص کرنا ہوں گی۔