عمران خان کی براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کا نوٹیفکیشن معطل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ موجودہ حالات میں تقریر پر پابندی کی کوئی مناسب وجوہات نہیں ہیں، عمران خان کے براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی جس میں پیمرا کے نوٹیفیکشن کو 5ستمبر تک معطل کر دیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیمرا اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں پیمرا عمران خان کی تقریر پر پابندی لگا کر اختیارات سے تجاوز کررہا ہے، موجودہ حالات میں تقریر پر پابندی کی کوئی مناسب وجوہات نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ کیا آپ عمران خان کے بیان کو جسٹفائی کرتے ہیں ؟ کیا ججز کو اس طرح دھمکیاں دی جاسکتی ہیں جس طرح دی گئی؟ تین سال جس طرح ظلم کیا گیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی، بہت بوجھل دل سے کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ کو دھمکیاں دینے کی امید نہیں تھی، افسوس ہے موجودہ حکومت وہی کررہی ہے جو پچھلے 3سال ہوتا رہا۔ ایک خاتون جج کو دھمکیاں دی گئیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پیمرا کہتا ہے کہ چینل نے ٹائم ڈیلے کی پالیسی نہیں اپنائی،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سارے چینلز نے بغیر ٹائل ڈیلے کے دکھایا ہے؟ پھر تو یہ ذمہ داری نیوز چینلز پر آتی ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پھر یہ لائیو تو چلتا ہی نہیں ہے۔

وکیل نے جواب دیا کہ بارہ سیکنڈز کا ٹائم ڈیلے ہوتا ہے تاکہ کوئی غلط بات کرے تو اسے سینسر کیا جا سکے۔ چینلز نے ٹائم ڈیلے نہیں کیا تو پیمرا نے ہمیشہ کے لیے عمران خان کی لائیو تقاریر پر پابندی لگا دی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پھر تو ایکشن نیوز چینلز کے خلاف ہونا چاہیے۔

ہمارے تھانوں کا کلچر ہے کہ ٹارچر ہوتا ہے، جس جذبے سے اپوزیشن میں آ کر بولتے ہیں اگر حکومت میں آ کر بولیں تو صورتحال مختلف ہو، یہ قوم آج بھی تقسیم ہے اور اسے متحد کرنے کی ضرورت ہے، ایگزیکٹوز جب حکومت میں ہوتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ تھانے میں ٹارچر ہوتا ہے، آج تک کسی بھی ایگزیکٹو نے ٹارچر کو ایشو کے طور پر نہیں دیکھا، سب سے بڑا ٹارچر اس ملک میں جبری گمشدگی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں