عمران خان نے توہین عدالت کیس میں اپنا جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروا دیا۔
خاتون جج کو دھمکیاں دینے پر توہین عدالت کیس میں عمران خان نے تحریری جواب جمع کروادیا۔ جواب میں عمران خان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ غیر ارادی طور پر بولے گئے الفاظ پر افسوس ہے۔
تحریری جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ اپنے الفاط پر خاتون جج سے پچھتاوے کا اظہار کرنے پر بھی شرمندگی نہیں ہوگی۔مجھے ضمنی خواب جمع کروانے کا موقع ملا تو پولیٹکل پوائنٹ سکورنگ کرنے والوں نے تنقید کی۔
جواب میں عمران خان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ بشمول ماتحت عدلیہ کو مضبوط کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔خاتون ججز کی اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ میں زیادہ سے زیادہ بھرتی کا حمایتی ہوں۔
جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہائیکورٹ میں شہباز گل کیس کی اپیل زیرالتوا ہے۔مجھے لگا کہ ماتحت عدالت نے جسمانی ریمانڈ دیدیا تو بات وہاں ختم ہو گئی۔شہباز گل پر ٹارچر کی خبر تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آئی۔
ویڈیوزمیں شہباز گل کو سانس لینے میں دشواری تھی اور وہ آکسیجن ماسک کیلئے منتیں کر رہا تھا۔شہباز گل کی اس حالت نے ہر دل اور دماغ کو متاثر کیا ہو گا۔خواتین کے حقوق کا علمبردار ہوں جو کہا اس کا مقصد خاتون جج کے جذبات مجروح کرنا نہیں تھا۔
عمران خان نے کہا ہے کہ عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گا ۔کبھی ایسا بیان دیا نہ مستقبل میں دوں گا جو کسی عدالتی زیر التوامقدمے پر اثر انداز ہو۔
انہوں نے کہا ہے کہ میں عدلیہ مخالف بدنتیی پر مبنی مہم چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا سوچ بھی نہیں سکتا۔عدالت سے استدعا ہے کہ میری وضاحت کو منظور کیا جائے۔
عمران خان نے توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا بھی کردی۔ انہوں نے کہا ہے کہ عدالتیں ہمیشہ معافی اور تحمل کے اسلامی اصولوں کو تسلیم کرتی ہیں۔عفوودرگُزر اور معافی کے وہ اسلامی اصول اس کیس پر بھی لاگو ہوں گے۔
واضح رہے کہ توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کا پہلا جواب مسترد کرتے ہوئے انہیں 7 روز میں جواب جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ عمران خان نے پہلے جمع کروائے گئے جواب میں کہا تھا کہ ججز کے احساسات کو مجروع کرنے پر یقین نہیں رکھتا، الفاظ غیر مناسب تھے تو واپس لینے کےلیے تیار ہوں۔
جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا۔آپ کا جواب اس بات کا عکاس ہے کہ جو ہوا اس کا آپ کو احساس تک نہیں۔