غزل : حُسن کی رعنائی کو پہچانتی ہے بس نظر آئینہ تو آئینہ ہے آئینے کو کیا خبر

حُسن کی رعنائی کو پہچانتی ہے بس نظر
آئینہ تو آئینہ ہے آئینے کو کیا خبر

مت سماؤ تم مرے وہم و گماں میں اس قدر
ریت کی دیوار میں اچھا نہیں لگتا گہر

منحصر ہے آپ پر کہ کیسے کرتے ہیں سفر
زندگی کے راستے تو بے خطر نہ پُر خطر

دے کے اپنا خونِ دل جس کو کیا میں نے شجر
دے رہا ہے آج وہ اغیار کو اپنا ثمر

وہ ملاقاتوں کو اکثر ٹالتا رہتا ہے یوں
اِس پہر سے اُس پہر اور اُس پہر سے اِس پہر

شام سے رہتا ہے دل کو انتظارِ صبح اور
انتظارِ شام میں جبکہ گزرتی ہے سحر

وہ نہیں آتا مری بانہوں میں تو اس میں عجب
کیا کبھی آغوشِ انساں میں بھی دیکھا ہے قمر

وہ اکیلا آدمی صفدؔر یہ کہہ کر مر گیا
زندگی کٹتی ہے تنہا پر نہیں ہوتی بسر

شاعر:صفدؔر

اپنا تبصرہ بھیجیں