سیلاب کے بعد کیمپوں میں مقیم متاثرین کی مشکلات کم نہ ہوسکی ہیں۔ مختلف وبا اور بیماریاں پھوٹنے سے 5 افراد انتقال کرگئے ہیں۔
سیلاب متاثرین میں گیسٹرو کا مرض وبائی شکل اختیار کرگیا ہے، جس کے بعد خیرپور میں پیر گوٹھ بچاؤ بند پر متاثرین کے کیمپ میں چار افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ متاثرین خوراک اور علاج کی سہولت سے محروم ہیں، جہاں مزید ہلاکتوں کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، جب کہ محکمہ صحت نے ضلع بھر میں تاحال میڈیکل کیمپ نہیں لگائے۔
سکھر میں بھی گیسٹرو سے بچہ دم توڑ گیا۔ کیمپ میں بھوک اور گرمی کے باعث بچوں میں بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے بی ایڈ کالج ریلیف کیمپ میں کھانا دینا بند کردیا ہے۔
سانگھڑ میں ضلعی انتظامیہ نے حیدرآباد روڈ پر سیلاب متاثرین کے لیے خیمہ بستی قائم کردی ہے تاہم وہاں بھی سہولیات کے فقدان سے لوگ پریشانی سے دوچار ہیں۔ سانگھڑ میں سیلاب متاثرین کیلئے30 خیمے لگائے گئے ہیں۔ گرمی اور مچھروں کی بھرمار کے باعث متاثرین کا خیموں میں رہنا مشکل ہوگیا۔
دوسری جانب سکھر بیراج میں پانی کم ہونے کے بعد لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ سکھر بیراج کے دوسرے دروازے سے نامعلوم شخص کی لاش برآمد کی گئی ہے۔
بیراج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اطلاع کے باوجود پولیس لاش نکالنے کیلئے نہیں پہنچی ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران سکھر بیراج سے گزشتہ 2ماہ کے دوران ملنے والی لاشوں کی تعداد 33 ہوگئی ہے۔ اس سے قبل ملنے والی لاشوں میں 9 خواتین کی لاشیں بھی شامل ہیں، تاہم کسی کی شناخت نہ ہو سکی۔
دریں اثنا سیلاب کا بڑا ریلا کیٹی بندر کے قریب سمندر میں جاگرا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں نمایاں کمی کے بعد سیہون کے قریب ایل ایس بچاؤ بند پر ننانوے میل کے مقام پر منچھر جیل کے مقام پر کٹ لگا دیا گیا ہے، جس کے بعد منچھر جھیل کا سیلابی ریلا دریائے سندھ میں جائے گا۔ منچھر جھیل سے پانی کا دباؤ کم ہوگا۔
کوہستان میں سیلاب سے تباہ ہونے والا کندیا ویلی روڈ تاحال بحال نہ ہوسکا۔ سڑک کی بندش کی وجہ سے کندیا کے ہزاروں لوگ محصور ہوکر رہ گئے ہیں، جنہیں کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ دواؤں کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ عوام کئی کلومیٹر پیدل دشوار گزار راستوں پر سفر کرتے ہوئے راشن و دیگر سامان لا رہے ہیں۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ روز جمعرات 8 ستمبر کو سیلاب متاثرہ علاقوں میں بحالی سے متعلق اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ سیلاب سے سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں انسانی زندگی رک سی گئی ہے۔ ان متاثرین کی بحالی اور مدد کیلئے بیس ارب سے زیادہ تقسیم کرچکے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ تمام کام شفافیت کے ساتھ ہوگا، این ڈی ایم اے کے مطابق ملک بھر میں سیلاب سے مزید چھتیس افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں، جس میں سے پینتیس کا تعلق سندھ سے ہے۔ جب کہ اموات کی مجموعی تعداد ایک ہزار تین سو اکیانوے ہوگئی ہیں۔
بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں بارش کو تھمے تیرہ روز گزر گئے مگر میونسپل کمیٹی کی جانب سے شہر کے گلی محلوں سے پانی نہیں نکالا جاسکا۔ شہر کے اندر ہر طرف تالاب اور منہدم مکانات سے تباہی دل دہلا دینے کا منظرپیش کررہی ہے۔
سندھ کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صورت حال بھی مختلف نہیں، جہاں متاثرین سراپا احتجاج بن گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے نہ کوئی ریلیف دیا جا رہا ہے اور نہ مدد ، ہمارے پاس کھانے کیلئے بھی کچھ نہیں ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں جمعرات 8 ستمبر کو سیلاب متاثرین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ جس کے بعد متاثرہ خواتین نے احتجاجاً ٹانک ڈیرہ روڈ ہرقسم کی ٹریفک کے لیے بند کردی اور ڈپٹی کمشنر کے خلاف احتجاج کیا۔