الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت پھیلانے کے کیس میں عدالت نے فواد چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دے دیا ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ نے محفوظ شدہ فیصلہ سنایا، جس میں عدالت نے پولیس کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کر دی ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں الیکشن کمیشن اراکین کودھمکانے سے متعلق کیس میں پی ٹی آئی رہنما فوادچودھری کو پیش کیا گیا، جہاں پراسیکیوٹر کی جانب سے پی ٹی آئی رہنما فوادچودھری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنمافوادچودھری کی وائس میچنگ ہوگئی ہے، فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ لاہور سے کروانا ہے جس کیلئے مزید جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔فواد چودھری آئینی ادارے کے خلاف نفرت پیدا کر رہے ہیں ، بیان سے الیکشن کمیشن کے ورکرز کی جان کو خطرہ پیدا کیاجارہا ہے۔فواد چودھری کیس کی مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ ضروری ہے۔
پراسیکیوشن کی جانب سےشہبازگِل کیس کاحوالہ بھی دیا گیا، تفتیشی افسر نے کہا کہ رات 12بجے دو روز کا ریمانڈ ملا تب تک ایک دن ختم ہو گیا تھا ، عملی طور پر ہمیں ایک دن کا ریمانڈ ملا ہے اب مزید ریمانڈ دیا جائے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ فواد چودھری کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے، فواد چودھری نے اپنی تقریر کا اقرار بھی کیا ہے، تقریر پر تو کوئی اعتراض اٹھا نہیں سکتا، ملزم نے بیان مانا ہے، فوادچودھری نےحکومت کے خلاف الزامات لگائے، الیکشن کمیشن کو حکومت کا منشی کہا، فواد چودھری نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے ملازمین کے گھروں تک جائیں گے، الیکشن کمیشن کا کردار اگلے چند ماہ بہت اہم ہے، الیکشن کمیشن کا کام کرپشن ختم کرنا ہے لیکن فواد چودھری پریشر بڑھارہے ہیں، الیکشن کمیشن کو دیوار کے ساتھ لگایاجارہا ہے، فواد چودھری سینیر سیاستدان ہیں لیکن قانون سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے، فواد چودھری کے گھر کی تلاشی لینا ضروری ہے، فواد چودھری کے گھر سے لیپ ٹاپ اور موبائل ان کی موجودگی میں لینا ضروری ہے، فواد چودھری کے بیان میں دیگر افراد بھی شامل ہیں۔
فواد چودھری کے وکیل بابراعوان نے اس پر کہا کہ میں بھی فواد چودھری کے بیان میں شامل ہوں، جس کے بعد بابراعوان اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے درمیان تکرار ہوئی، بابر اعوان نے کہا کہ ججوں کے گھروں تک جانے کا بیان دیاگیا، ہم نے پرچہ نہیں کروایا تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ فواد چودھری کا بیان کسی ایک بندے کا نہیں، ایک گروپ کا بیان ہے، الیکشن کمیشن کے ہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے اعلیٰ عہدیداران کے خلاف مہم چل رہی ہے۔ ڈسچارج کی استدعا گزشتہ پیشی پر ڈیوٹی میجسٹریٹ نے مسترد کردی تھی، عدالت کے سامنے تمام شہری برابر ہیں۔
وکیل بابراعوان نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فواد چودھری کوئی کلبھوشن یا دہشتگرد نہیں ہے، کلبھوشن کے چہرے پر فواد چودھری کی طرح چادر نہیں ڈالی گئی تھی، فواد چودھری کے لیے دہشت گرد کے اہلکار کھڑے ہوئے ہیں، سیکٹری الیکشن کمیشن سرکار کے نوکروں کا بھی نوکر ہے۔ مجھے اپنے منشی پر فخرہے، میرے منشی کو سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت ہے، معلوم نہیں منشی سے پراسیکیوشن کو اتنی چِڑ کیوں ہے، الیکشن کمیشن کوئی وفاقی حکومت نہیں اور نہ ہی قومی اسمبلی ہے۔
انہوں نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فواد چودھری تحریک انصاف کے سینئر رہنما ہیں، فوجداری کارروائی کرنے والا سیکٹری الیکشن کمیشن کیا شفاف انتخابات کروائےگا؟پاکستان میں بڑی جیل بناکرسب جو قیدیوں میں شمار کرلیں، الیکشن کمیشن ایک پارٹی کی ترجمانی کر رہا ہے،پراسیکیوشن کہتی ہے مزید ملزمان کو ڈھونڈنا ہے، پولیس جس کو پکرتی ہےکہتی ہے لاہور میں بیٹھے شخص کا نام لےلو، تحریک انصاف کے رہنما شیر کے بچے ہیں، لاہور میں بیٹھنے والے کانام نہیں لیتے۔سارے ثبوت اور لیب لاہور میں ہیں، جب لاہور ہائیکورٹ ملزم کا پوچھ رہی تھی تو اسلام آباد لے آئے، پراسیکیوشن نہیں بتا رہی کہ یہ فواد چودھری سےچاہتےکیاہیں،فواد چودھری نے آگ لگانےکا نہیں کہا، پاکستان میں وکلا قتل ہورہے، ان پرحملےہورہے،جن وکیلوں کو قانون کی بالادستی کا شوق ہےتو پرائیویٹ وکالت کرنے کی ہمت کریں۔
الیکشن کمیشن میرے خلاف مقدمہ میں مدعی ہیں، ان سے انتخابات میں انصاف کیسےمانگوں؟ کلبھوشن پراسیکیوشن کا کزن ہے؟ کیوں نہیں پوچھتے اس سے؟ دنیا میں آزاد عدلیہ کا کوئی تصور نہیں ہے، فرخ حبیب نے کالے ڈالے کو روکنےکی کوشش کی، اس پر مقدمہ ہوگیا، مقدمے میں کہا اکتیس ویگو ڈالے تھے، اس پر فرخ حبیب نے ڈکیتی کرنے کی کوشش کی۔
جس کے بعد وکیل بابراعوان نے فواد چودھری کے مقدمے کو ڈسچارج کرنے کی استدعا کردی، وکیل بابراعوان نے الیکشن کمیشن کو وفاق کا حصہ بنانے کی بھی استدعا کی۔
عدالت میں فواد چودھری نے کہا کہ عمران خان پاکستان کے لیے جدوجھد کررہےہیں، کربلا کا منظر بنایاجارہا ہے، ہم حق سچ بات کریں گے، میں تحریک انصاف کا ترجمان ہوں، ضروری نہیں میری اپنی رائےہو، میں نے اپنی جماعت کی ترجمانی کرنی ہے، جو میں نے بیان دیا وہ میری جماعت کا موقف ہے،