جوڈیشل مجسٹریٹ نے سیکرٹری صحت سندھ کو عامر لیاقت کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لئے انتظامات کا حکم دے دیا۔
کراچی سٹی کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی عدالت نے معروف مذہبی اسکالر اور سیاستدان ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کے پوسٹ مارٹم کا حکم دیا تھا اور اب عدالت نے محکمہ صحت سندھ کو اس حوالے سے انتظامات کا بھی حکم دے دیا ہے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نےسیکریٹری صحت سندھ کوخط لکھا ہے جس میں عدالت نے عامر لیاقت کے پوسٹ مارٹم کے لئے ضروری انتظامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے سیکرٹری صحت سندھ کو حکم دیا ہے کہ ڈاکٹرعامرلیاقت حسین کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لئے تاریخ مقررکی جائے، اور پوسٹ مارٹم کے لئے میڈیکل بورڈ بنایا جائے۔
واضح رہے کہ عامر لیاقت حسین کا انتقال ایک معمہ بن گیا ہے اور ان کی نماز جنازہ بھی پولیس کی جانب سے پوسٹ مارٹم کروانے کے اصرار کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی تھی، پولیس حکام کا موقف تھا کہ موت کی وجہ کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے پوسٹ مارٹم ضروری ہے۔
کراچی سٹی کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کے پوسٹ مارٹم کیلئے شہری کی دائر درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔
درخواست گزار عبدالاحد کے وکیل ارسلان راجہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ عامر لیاقت کی اچانک پراسرار موت ہوئی ہے اور معروف ٹی وی ہوسٹ اور سیاست دان تھے۔
بیرسٹر ارسلان راجہ کا کہنا تھا کہ عامر لیاقت کی اچانک موت سے ان کے مداحوں میں شکوک و شبہات ہیں اور شبہ ہے کہ عامر لیاقت کو جائیداد کے تنازع پر قتل کیا گیا ہے اور ان کے پوسٹ مارٹم کیلئے خصوصی بورڈ تشکیل دیا جائے۔
پولیس ٹیم کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جسم کے اندرونی حصوں کا جائزہ لیےبغیرموت کاتعین نہیں ہوسکتا۔
سرکاری وکیل نے بتایا کہ مرحوم کے ورثا کو کسی پرشبہ نہیں اور وہ پوسٹ مارٹم کرانا نہیں چاہتے ہیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور پھر عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم کرانے کا حکم دے دیا۔ پولیس کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کروانے کی ہدایت کی گئی۔
اس سے قبل عامر لیاقت کے اہل خانہ نے عدالت سے رجوع کیا تھا اورجوڈیشل مجسٹریٹ کے ہمراہ پولیس سرجن کی جانب سے معائنہ کرنے کے بعد میت ورثا کے حوالے کردی تھی۔
عامر لیاقت حسین نے انتقال سے پہلے آخری گفتگو کس سے کی اور وہ کس سے رابطے میں تھے، پولیس حکام نےعامر لیاقت کا موبائل فون ، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ تحویل میں لے کرفارنزک کے لئےبھیج دیئے ہیں جن کی رپورٹ 15 روز میں متوقع ہے۔
اس سے قبل پولیس کی جانب سے ایک لیٹرجاری کیا تھا اور چھیپا سردخانے کی انتظامیہ سے کہا تھا کہ عامر لیاقت حسین کی میت پولیس کےعلاوہ کسی کے حوالے نہ کی جائے، پولیس نےعامر لیاقت کی میت ورثا کو دینے سے بھی روک دیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ عامر لیاقت حسین کی میت ایک معمہ بن چکی ہےاوران کی موت کے حوالے سے تاحال وضاحت نہیں مل سکی، یہ ہائی پروفائل کیس ہےاور پولیس نے اس حوالے سے مزید تحقیقات کرنی ہیں، کارروائی مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
چھیپا ویلفئیر کے سربراہ رمضان چھیپا نے بتایا تھا کہ عامرلیاقت کی سابقہ اہلیہ پوسٹ مارٹم کے لیے نہیں مان رہی تھیں، جب کہ پولیس نے کارروائی کے لئے پوسٹ مارٹم کا کہا ہے۔
مرحوم عامر لیاقت کی میت لینے کے لئے ان کا بیٹا احمد اور بیٹی دعا سرد خانے میں پہنچے، جہاں ان کی پولیس حکام سے بات چیت ہوئی، پولیس نے انہیں پوسٹ مارٹم سے روکنے پرعدالتی احکامات پیش کرنے کا کہا، تاہم بچوں کے اصرار پر موقع پر موجود ایس ایس پی ایسٹ اورعامر لیاقت کے بچوں کے مابین اتفاق ہوا کہ عامر لیاقت حسین کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوگا اور بچوں نے پوسٹ مارٹم نہ کرانے کے لئے حلف نامہ بھی دیا۔
سرد خانےمیں موجود ایس ایس پی ایسٹ نے اعلیٰ افسران کو اس حوالے سے آگاہ کیا تو اعلیٰ افسر کی جانب سے بچوں کا حلف نامہ لینے سے منع کردیا گیا، اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کے تحت دفعہ 174 کی کارروائی کے بعد پوسٹ مارٹم لازمی ہے، صرف عدالتی حکم نامہ ہی پوسٹ مارٹم رکواسکتا ہے۔
عامرلیاقت حسین جمعرات 9 جون کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ عامر لیاقت حسین کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ڈاکٹرز نے معائنے کے بعد انتقال کی تصدیق کی، جب کہ ان کے ڈرائیورجاوید نے پہلے ہی موت کی تصدیق کردی تھی۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ عامر لیاقت حسین کو جب اسپتال لایا گیا تو وہ انتقال کر چکے تھے۔ڈرائیور جاوید کا کہنا تھا کہ گھر میں عامر لیاقت کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تاہم اندر سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔