اک بوسیدہ آدمی

اک بوسیدہ آدمی فٹ پاتھ پہ بیٹھا ہوا
جس طرح کوئی چاند ہو اک رات پہ بیٹھا ہوا

جس طرح کوئی بات ہو اور بات بھی اچھی نہ ہو
جس طرح کوئی داستاں اور داستاں سچی نہ ہو

جس طرح کوئی پھول چُن لے مکڑیوں کو ہم سفر
اس طرح بے حس ہوا ہے آپ کا میرا نگر

اُس بوسیدہ آدمی کو ہم نے دیکھو کیا دیا
سرد رُت میں ایک کمبل جابجا ادھڑا ہوا

اُس بوسیدہ آدمی کو کون سنبھالے گا اب
موت کے احسان سے یہ زندگی نکلے گی کب
۔۔۔
محمد وقار حیدر

اپنا تبصرہ بھیجیں