تاریخ میں ایسی شخصیات جنم لیتی رہی ہیں جنہوں نے دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی رفعت و عظمت کو برقرار رکھا۔ان عہد ساز شخصیت میں بانی پاکستان محمد علی جناح بھی شامل ہیں۔وزیر مینشن کے نام سے کھارا در کراچی میں قائم عمارت میں رہائش پذیر پونجا جناح کے گھر 25دسمبر 1876 کوایک بچے کی پیدائش ہوئی جس کو محمد علی جناح کا نام دیا گیااور برصغیر کے مسلمانوں نے اسے قائد اعظم کے نام سے پکارا، اپنی ابتدائی تعلیم امتیازی پوزیشن سے مکمل کر کے اعلیٰ تعلیم کے لئے 1891کو برطانیہ چلے گئے۔قائد اعظم 1896میں قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آگئے اور وکالت کے ساتھ برصغیر کی سیاست میں حصہ لیا اور 1906میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔کانگریس کے 7سالہ سیاسی رفاقت میں اس نتیجے پر پہنچے کہ کانگریس صرف ہندوقوم کے لیے کام کر رہی ہے۔کانگریس کی مسلم دشمنی دیکھتے ہوئے قائد اعظم نے 1913میں مسلم رہنماؤں علامہ اقبال،سر آغاخان سوئم اور چوہدری رحمت کی درخواست پر مسلم لیگ میں شامل ہوکر، برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا کی اور علیحدہ آزاد ریاست حاصل کرنے کے لیے متحرک کر کے تحریک آزادی کو منطقی انجام پر پہنچایا۔قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی سیاسی بصیرت، تدبر، معاملہ فہمی اور جہد مسلسل سے با لآخر برصغیر سے برطانیہ کا تسلط ختم کیااور مسلمانو ں کے لیے 14اگست 1947کوآزاد ریاست لینے میں کامیاب ہوگئے جس کا نام پاکستان ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح 1913سے لے کر 11اگست 1947تک آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہے۔قیام پاکستان کے بعداپنی وفات تک یعنی 14اگست 1947سے لے کر 11ستمبر 1948 تک پاکستان کے پہلے گورنر جنرل رہے۔قائد اعظم علامہ اقبال کے خواب اور مسلمانوں کے لیے آزادر ریاست پاکستان کو عملی طور پر قائم کرنے کے محض ایک سال بعد ہی 11ستمبر1948کو 71برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔
یوں لگتا ہے کہ قائد اعظم کو پاکستان کے قیام کے لیے ہی دنیا میں بھیجا گیا تھا اور وہ اپنا فریضہ ادا کرنے کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کر گئے اور علامہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر بن گئے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
قائداعظم محمد علی جناح سے قوم کی انسیت اور محبت کا یہ عالم ہے کہ ان کی رحلت کے بعد قائداعظم کے زیر استعمال اشیا کو خصوصی اہمیت دی گئی اور ان کو سنبھال کر رکھا گیا ہے جس کو جناح میوزیم کا نام دیا گیا۔ قائداعظم سے محبت اور جذباتی لگاؤفطری امر ہے لیکن قائداعظم سے اصل محبت یہ ہو گی کہ ہم ان کے فرمودات پر عمل کرتے ہوئے ملک کو عظیم سے عظیم تر بنائیں۔
اپریل 1948کو پشاور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا ’اب جبکہ ہم نے منزل پا لی ہے، آپ مجھ سے اس مشورے کی توقع رکھیں گے کہ ہم کس طریقے سے اپنی نوزائیدہ مملکت کو دنیا کی عظیم ترین مملکت میں بدلنے کے بے حد مشکل اور اہم کام کوسر انجام دے سکتے ہیں۔ قوم کے کرنے کا پہلا کام شعور کا حصول ہے کہ
آ ج جو مسائل ہمیں درپیش ہیں اور جدوجہد آزادی کے درمیان جن مسائل کا ہمیں سامنا تھا ان سے نمٹنے کے انداز میں فرق ہونا چاہیے۔ اب آپ کی ذمہ داریوں اور سیاسی معاشرتی مسائل سے عہدہ برا ہونے کا انداز بدل جانا چاہیے۔اب آپ کو تعمیری انداز اختیار کرنا چاہیے۔30اکتوبر1947کو لاہورمیں کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی۔11اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی سے کہا کہ انصاف اور مساوات میرے رہنما اصو ل ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہم پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بنا سکتے ہیں۔مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، تنظیم، یقین محکم ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو ہمیں دنیا کی عظیم قوم بنائیں گے۔قائد اعظم کے یہ فرمودات اور اقوال ہمارے لیے مشعل راہ ہیں بحیثیت قوم ہمارا فرض ہے کہ ہم ان فرمودات قائد پر عمل کر کے پاکستان کو دنیا کے عظیم ممالک کی صف میں لا کھڑا کریں۔
مجاہد الآفاق