سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ہفتے تک تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
صدرسپریم کورٹ باراحسن بھون اور عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ بابراعوان اورفیصل چوہدری کی نمائندگی کررہا ہوں، بابراعوان اورفیصل چوہدری کونوٹس جاری کیےگئےتھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے نوٹس نہیں کیے تھےصرف جواب مانگےتھے،دونوں وکلاء کے جواب بظاہرمناسب ہیں، جوابات کا جائزہ بعد میں لیں گے ، پہلے حکومتی وکیل کامؤقف سن لیتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نےتفصیلی جواب کے لئے وقت مانگا ہے،انہوں نےکسی بھی یقین دہانی سےلاعلمی ظاہرکی ہے، عمران خان نےجواب میں عدالتی حکم سےبھی لاعلمی کااظہار کیاہے۔
عامر رحمان نے کہا کہ عمران خان کی جانب سےیقین دہانی کرائی گئی تھی،فیصل چوہدری کےمطابق ہدایت اسد عمرسے لی تھیں،فیصل چوہدری کے مطابق ان کا عمران خان سےرابطہ نہیں ہو سکاتھا،بابراعوان کےمطابق عمران خان کانام کسی وکیل نےنہیں لیا تھا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ 25 مئی کوپہلے اوردوسرے عدالتی احکامات میں کتنی دیرکا فرق ہے،جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پہلا حکم دن 11بجےاوردوسرا شام 6 بجے دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ دونوں احکامات کے درمیان کا وقت ہدایت لینےکے لئےہی تھا، عدالت کونہیں بتایاگیاتھا کہ ہدایت کس سےلی گئی ہے، اگرکسی سے بات نہیں ہوئی تھی توعدالت کوکیوں نہیں بتایا گیا؟ اس بات کی وضاحت تو دینی ہی پڑے گی۔
جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا کہ کعدالت نے بابراعوان اورفیصل چوہدری پراعتماد کیاتھا،دونوں وکلاء نے کبھی نہیں کہا انہیں ہدایات نہیں ملی،عمران خان کوعدالتی حکم کا کیسے علم ہوا؟یقین دہانی پی ٹی آئی اعلی قیادت کی جانب سےکرائی گی تھی،پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کاآغازعمران خان سےہوتاہے،عمران خان نےتفصیلی جواب کا وقت مانگا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیے کہ پی ٹی آئی نے 2014 میں بھی این او سی کی خلاف ورزی کی تھی،سپریم کورٹ میں عمران خان پر شرمناک کہنے پر توہین عدالت کا کیس چلا، 2مرتبہ عمران خان الیکشن کمیشن سے بھی معافی مانگ چکے ہیں، عدالت کئی مرتبہ تحمل کا مظاہرہ کرچکی ہے۔
چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس ماضی کے مقدمات سے مختلف ہے۔
عامر رحمان نے کہا کہ جلسے کے لئے مختص جگہ سے گزرکرعمران خان جناح ایونیو آئے، بلیو ایریا میں عمران خان نے تقریر صبح ساڑھے 7بجے کی۔
جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جن واقعات کا ذکر آپ نے کیا وہ عمران خان کے آنے سے پہلے کے ہیں۔ وکیل احسن بھون نےاپنے دلائل میں کہا کہ فیصل چوہدری نے عدالتی ہدایت پر بابر اعوان سے رابطہ کیا تھا، وکلا ءنے کہا تھا اٹک عمران خان کے پاس جانا ممکن نہیں،عدالت نے حکومت کو وکلا ءکی عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیا تھا، حکومت نے وکلا کی عمران خان سے ملاقات کا بندوبست نہیں کیا،20 منٹ انتظار کرکے وکلاء نے میڈیا سے گفتگو کی اورچلے گئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ وکلاء کا رابطہ نہیں ہوا تو یقین دہانی کس طرف سے کرائی ؟
جس پر وکیل احسن بھون نے جواب دیا کہ حکومت نے ملاقات کی سہولت ہی نہیں دی ہدایت کیسے لیتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وکلاء کی کسی سینئر لیڈر سے بات نہیں ہوئی تھی، کیا ٹیلی فونک رابطہ بھی نہیں کیا گیا تھا، فیصل چوہدری صاحب پریشان نہ ہوں آپ کو کوئی نوٹس نہیں ہے۔
وکیل فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ توہین عدالت کے نوٹس سے زیادہ اپنے کیرئیر کی فکر ہے،25مئی کی سماعت 4حصوں پر مشتمل تھی، پہلے حصے میں ضلعی انتظامیہ کو بلایا گیا تھا،12بجے مجھے عدالت میں بلاکر رابطے کی ہدایت کی گی۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ عمران خان سفر میں ہوں تو جیمرساتھ ہوتے ہیں، بابراعوان سے رابطہ ہوا تو انہیں عدالتی کارروائی سے آگاہ کیا، اسد عمر کے ساتھ میرا رابطہ ہوا انہیں آگاہ کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کیا اسد عمر رابطے کے وقت ریلی میں نہیں تھے؟ تصاویر کے مطابق تو اسد عمر ریلی میں تھے، جیمرز تھے تو اسد عمر سے رابطہ کیسے ہوا؟ اسد عمر کا عہدہ کیا ہے؟۔
جس پر فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ اسد عمر پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں،عدالت کے ساتھ غلط بیانی نہیں کروں گا، اسد عمرسے رابطے کے وقت عدالت کو کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا۔