پاکستان کے محسن اور اسے ایٹمی طاقت بنانے میں اہم ترین کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آج پہلی برسی ہے۔
70 کی دہائی میں بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکا کیا ، جس کے بعد پاکستان کو اپنی سلامتی کے سنگین خطرات لاحق ہوگئے۔
اس صورت حال میں اس وقت کے وزیر اعظم زوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس وقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہالینڈ میں ایک یورپی کمپنی میں یورینیم افزودگی کے لیے سینٹری فیوجز بنانے کے کام میں شامل تھے۔
کراچی میں پرورش پانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہالینڈ میں ایک بہترین زندگی گزار رہے تھے لیکن وہ پاکستان کی محبت میں واپس لوٹے اور ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ کندھے سے کندھا ملا کر پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے مشن پر جت گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے جانے کے بعد یہ مشن بند نہیں ہوا، سابق صدر ضیاء الحق اور بعد کی جمہوری حکومتوں نے بھی اسے آگے بڑھایا۔ 80 کی دہائی میں یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی تھے جن کی ایک دھمکی نے جنگ پر آمادہ بھارت کو اپنے قدم روکنے پر مجبور کردیا تھا۔
مئی 1998 میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان نے اس کے جواب میں اپنی ایٹمی صلاحیت دنیا پر عیاں کردی۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکیومت میں امریکا نے الزام لگایا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کا گروہ شمالی کوریا، ایران اور لیبیا کو ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹم بم بننانے کے لئے ضروری ساز و سامان کی فراہمی میں ملوث ہے۔
پرویز مشرف اس دباؤ کو برداشت نہ کرسکے اور 4 فروری 2004 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سرکاری ٹی وی پر ایک بیان پڑھا جس میں انھوں نے ان کارروائیوں کی تمام ذمہ داری قبول کی،جس کے بعد انہیں نظر بند کردیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی کے خلاف عدالت میں کئی برسوں تک سماعت جاری رہی، اسی دوران 10 اکتوبر 2021 کو ان کا انتقال ہوگیا۔ دنیا نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے اس عظیم انسان کو دہشت گرد اور اسمگلر قرار دیا لیکن پاکستان کے لئے وہ ہمیشہ محسن ہی رہیں گے۔