سینیر صحافی ایاز امیر کا نام سارہ انعام قتل کیس سے خارج

معروف سینیر صحافی اور کالم نگار ایاز امیر ( Ayaz Amir ) کا نام ان کی بہو سارہ انعام کے قتل کے کیس سے خارج کرتے ہوئے ڈسچارج کردیا۔ عدالتی ریمارکس میں کہا گیا کہ ایاز امیر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔

اسلام آباد ( Islamabad ) ڈسٹرکٹ سیشن عدالت میںآج بروز منگل 27 ستمبر کو سارہ انعام قتل کیس میں سینیر صحافی ایاز امیر کو سینیر سول جج محمد عامر عزیز کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

سماعت کے آغاز میں تفتیشی افیسر نے کہا کہ رات کو تفتیش کی ہے، ملزم شاہنواز کا ان سے رابطہ ہوا تھا، مقتولہ کے والد بھی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں، اس موقع پر پولیس کی جانب سے ایاز امیر کے جسمانی ريمانڈ ميں 5 دن توسيع کی استدعا کی گئی۔ ایاز امیر کی جانب سے ایڈووکیٹ بشارت اللہ، نثار اصغراور ملک زعفران نے وکالت نامے جمع کرائے۔

سماعت کے دوران ایاز امیر کے وکیل بشارت اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایاز امیر کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، پوليس نے وارنٹ گرفتاری حاصل کر کے ایاز امیر کو گرفتار کیا، وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایاز امیر کے خلاف پولیس کے پاس ثبوت کیا ہے، برطانيہ سے اگر بندہ آ رہا ہے تو وہ اس کیس کا گواہ نہیں۔ ایاز امیر اپنے گھر چکوال میں تھے، انہوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ 35 سال سے ایاز امیر کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں۔

وکیل کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ سردست صفحہ مثل پر کوئی ثبوت نہیں، انہیں مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے۔ پولیس ابھی تک نہیں بتا سکی کس ثبوت کے تحت ایاز امیر کو گرفتار کیا۔ ہم تو تفتیش سے نہیں بھاگ رہے، وارنٹ لے کر گرفتار کر لیا، کوئی ایسا ایکٹ بتا دیں جس سے ثابت ہو ایاز امیر ملوث ہے۔

اس موقع پر سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ باتیں ٹرائل کی ہیں، ریمانڈ اسٹیج پر دیکھا جائے کیا ثبوت آئے ہیں، مقتولہ کے والدین آئے ہیں، تدفین بھی کرنی ہے، ابھی تک ایاز امیر کا واٹس ایپ پر رابطہ ہوا وہ ثبوت ہے، اگر ہمیں خود بھی لگتا ہے اگر یہ بیگناہ ہے تو ہم ڈسچارج کر دیں گے۔

دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ ایاز امیر کو کس نے نامزد کیا وہ کدھر ہیں، جواباً سرکاری وکیل نے کہا کہ وہ مقتولہ کے چچا ہیں اور پاکستان ہی میں ہیں۔ جج نے پھر سوال کیا کہ آپ کے پاس بادی النظر میں ثبوت کیا ہے، جس پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مقتولہ کے قتل کے بعد ملزم کا اپنے والد سے رابطہ ہوا ہے۔ مقتولہ کے والدین کے پاس سارے ثبوت ہیں۔

اس دوران ایاز امیر کے وکیل بشارت اللہ نے کہا کہ پولیس ایک بٹن دبائے تو سی ڈی آر نکل آتی ہے۔ والد کا بیٹے سے رابطہ وقوعہ کے بعد ہوا ہے۔ باپ کا بیٹے سے رابطہ ہو جائے تو کیا دفعہ 109 لگتی ہے؟، پھر تو پولیس کا جس جس سے رابطہ ہوا ان کو ملزم بنا دے گی۔

عدالت کی جانب سے پولیس کی جسمانی ریمانڈ ميں توسيع کی استدعا پر فیصلہ کچھ دیر کیلئے محفوظ کیا گیا۔ بعد ازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ایاز امیر کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کا حکم دیا۔ سینیر سول جج عامرعزیر نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایاز امیر کے خلاف صفحہ مثل پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں