سندھ ہائیکورٹ نے بجلی کے بلوں میں کے ایم سی ٹیکس کی وصولی کے خلاف کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ آپ کے الیکٹرک کے ذریعے کے ایم سی ٹیکس وصول نہیں کر سکتے، بتائیں اس ٹیکس کی کیا قانونی حیثیت ہے ؟ وصولی کے لیے صرف کے الیکٹرک بچا ہے؟
سندھ ہائیکورٹ میں بجلی کے بلوں میں کے ایم سی ٹیکس کی وصولی کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب سندھ ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں صفائی تو ہو نہیں رہی ہے۔کے الیکٹرک ٹیکس بلوں میں کیوں وصول کررہی ہے ؟شہری ٹیکس نہ دیں تو انکی بجلی کٹ جائے گی۔
انہوں نے کہا کے الیکٹرک کی گاڑیوں پر کچرا پھینکا جارہا ہے۔کے ایم سی کا اپنا ریکوری سیل ٹیکس وصولی کرے۔کے ایم سی کے پاس ٹیکس جمع کرنے کا طریقہ کار موجود ہے ۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ کے ایم سی کا کام شہر میں کام کرنا ہے پارک بنانا ہے۔ جج نے استفسار کیا کہ وصولی کے لیے صرف کے الیکٹرک بچا ہے؟ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ہم نے کوشش کی تھی ریکوری کرنے کی مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کے الیکٹرک کا تو حکومت سے تنازعہ چل رہا ہے۔کیا یہ پیسے آپ کو کے الیکٹرک والے دیں گے ؟ ضلعی کونسل کی قرار داد دو جون 2008 آپ نے جمع کرائی ہے۔روڈ بنانے کے لیے دو ارب روپے کا اعلان کیا تھا۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا ہمیں ڈھائی ارب روپے ملے ہیں۔
جج نے پوچھا کہ کیا سٹی کونسل اس وقت فعال ہے ؟پراپرٹی موٹر وہیکل ٹیکس لیا جارہا ہے ،کراچی کو کتنا مل رہا ہے ؟ مرتضی وہاب نے جواب دیا کہ موٹر وہیکل سے متعلق حکومت سے بات کررہا ہوں۔
عدالت نے مرتضیٰ وہاب سے مکالمے میں کہا کہ آپ کے الیکٹرک کے ذریعے یہ ٹیکس وصول نہیں کرسکتے۔آپ چارجز لے رہے ہیں سروس تو دیں۔مرتضی وہاب نے جواب میں کہاکام شروع ہوگیا ہے ہم آپ کو بتائیں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کہاں کام شروع ہوا ہے کام شروع ہوتا تو نظر بھی آتا ۔صرف ٹیکس لیں گے آپ کام کوئی نہیں کریں گے ؟ بتائیں اس ٹیکس کی کیا قانونی حیثیت ہے ؟
عدالت کی جانب سے ریمارکس میں کہا گیا ہے کہ کے ایم سی کو کسی نے ریونیو جمع کرنے سے روکا ہے ؟جائز طریقے سے پیسے وصول کریں۔ کے الیکٹرک کو کسی کی بجلی کاٹنے کی اجازت کیسے دے دیں ؟ آپ کی سندھ حکومت کیوں مدد نہیں کرتی ؟
مرتضی وہاب نے عدالت سے کہا میں آپ کو مطمئن کروں گا تھوڑی سی مہلت دے دیں۔گزارش ہے حکم امتناع مت دیں ۔ہماری قرارداد میں 200 روپے کم کرکے 50 روپے کی گئی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے جواب دیا کہ اگر ۔ٹیکس کے نتیجے میں کیا سروسز دیں گے ؟
مرتضی وہاب نے عدالت کو بتایا کہ سروسز میں سڑکیں ، پارکس اور فٹ پاتھ شامل ہیں۔ عدالت نے سوال کیا کہ کیا شہری یہ سہولیات اپنے پیسوں سے حاصل کریں گے ؟ یہ تو آپ کا کام ہے بنیادی سہولیات دیں۔ایک لاکھ روپے جمع ہوتا ہے تو کراچی کو اس کے بدلے میں کیا ملتا ہے ؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ کیا صوبائی حکومت احسان کررہی ہے ؟ سارا ٹیکس لے رہی ہے۔جب یہاں سہولیات دینے کی بات آتی ہے تو ایسا لگتا ہے خیرات دے رہے ہیں۔سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں پارکس تباہ ہیں ، اسٹریٹ لائٹس نہیں ، ڈکیتیاں ہورہی ہیں۔