سیلابی صورتحال برقرار، ملک بھر میں اموات کی تعداد 1136 تک پہنچ گئی

سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیلاب سے تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ سیم نالوں اورنہروں میں شگاف پڑگئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق ملک بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 1136 تک جا پہنچی ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے تازہ اعداد و شمار جاری کردئیے ہیں۔ منگل 30 اگست کو جاری رپورٹ کے مطابق ملک میں تباہ کن سیلاب سے 24 گھنٹوں میں مزید 75 اموات ریکارڈ کی گئیں، جس کے بعد پاکستان بھر میں بارشوں اور سیلاب سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 1136 تک پہنچ گئی ہے۔

اس دوران مختلف حادثات میں 1634 افراد زخمی بھی ہوئے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق سب سے زیادہ اموات سندھ میں 402 ہوئیں، جب کہ بلوچستان 244 ، خیبرپختونخوا 258 اور پنجاب میں 168 اموات کی تصدیق کی گئی۔ آزاد کشمیر میں 41 اور گلگت بلتستان میں 22 افراد لقمہ اجل بنے۔

رپورٹ کے مطابق سیلاب اور بارشوں سے 162 پل تباہ اور 3471 کلو میٹر پر محیط شاہراہیں متاثر ہوئیں، اس دوران 10 لاکھ 51 ہزار سے زیادہ گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔

اندہوناک صورت حال کے دوران 7 لاکھ 35 ہزار مویشی ریلوں میں بہہ گئے ہیں۔

دریائے سندھ میں پانی کی بلند ہوتی سطح نے ضلع دادو کے لیے مزید خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ مٹیاری کے گودام میں برساتی پانی سے گندم کی چالیس ہزار سے زیادہ بوریاں خراب ہونے لگیں۔ صوبے بھر میں بارشوں سے آٹھ سو ساٹھ ارب روپے کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس دوران پندرہ لاکھ مکانات کو نقصان پہنچا۔

سندھ میں سیلاب سے تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ مٹیاری کےعلاقے کھنڈو میں 2 دیہات سیلابی پانی میں ڈوب گئے اور300 سے زائد مکانات منہدم ہوگیا۔ ایک مکان گرنےسے 7 بچے اور خاتون زخمی ہوگئیں۔

سانگھڑ میں سیم نالے میں شگاف پڑنے سےخیرپور جانے والی شاہراہ زیرآب آگئی۔

میہڑ کے قريب سپربند میں 30 فٹ چوڑا شگاف ہوگیا جس سے6 یونین کونسلوں کو خطرے لاحق ہیں۔

بدين ميں ایل بی او ڈی میں 300 فٹ چوڑے شگاف سے شہر سمن سرکاراور روشن آباد ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس وقت سیلابی ریلہ پنگریو شہر کی طرف بڑھ رہا ہے اور لوگ گھر بارچھوڑ کرمحفوظ مقامات کی تلاش میں ہیں۔

قمبرشہداد کوٹ میں سیلاب متاثرین مشکلات کا شکار ہیں۔اسپتالوں میں بیماروں کی آمد جاری ہے تاہم انڈس ہائی وے پرزچہ بچہ کا اسپتال خود پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔

نوشہروفیروزکے گاؤں غلام محمد میں سیلابی پانی داخل ہوچکا ہے۔ شہر کاخیرپور سے گزشتہ 4 روز سےرابطہ منقطع ہے۔ علاقے میں خواتین اوربچوں سمیت کئی افراد پھنسے ہوئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنرکے مطابق روزانہ 500 افراد کو ریسکیو کرکے سرکاری عمارتوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔

ٹھٹہ کےعلاقےمکلی میں مدد نہ ملنے پرمتاثرین نےآٹے سے بھرے 3 ٹرکوں پر دھاوا بول دیا اورآٹے کی بوریاں لے گئے۔

سکھر کا نواحی گاؤں یارمحمد گھمرو مکمل طور پر بارش کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔اگرچہ بارش تین روز سے تھم چکی ہےتاہم متاثرہ علاقے میں پانی نکالنے کے لیے کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔

ادھر سکھر بیراج اور گڈو بیراج پر 1 ہفتے سے اونچے درجے کا سیلاب ہے اور اطراف کے 600 دیہات زیرِآب ہیں۔ لوگ مدد کا انتظار کر رہے ہیں۔

سکھراور گڈو بیراجوں پر ایک ہفتے سے اونچے درجے کا سیلاب برقرار ہے۔ سکھر بیراج پر پانی آمد اور اخراج 5لاکھ 44ہزار 711 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

گڈو بیراج پر پانی آمد اور اخراج 5 لاکھ کیوسک سے تجاوز کرگیا ہے۔2 روز کے بعد پانی میں دوبارہ اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ دریائے سندھ میں چشمہ بیراج کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب متوقع ہے۔ جناح بیراج میں درمیانے درجے کا سیلاب ہے اور دونوں بیراجوں میں پانی کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ فلڈ کنٹرول روم کے مطابق 7 لاکھ کیوسک پانی کا ریلا 24 گھنٹوں کے دوران کسی بھی وقت گزر سکتا ہے۔

چارسدہ میں سیلاب متاثرین کی خیمہ بستی میں کھیلتے ہوئے دو بچے پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔ دونوں بچوں کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ سوات درہ کے رہائشی نور خان کا کروڑوں کا گھر لمحوں میں سیلاب کی نذر ہوگیا۔ نور خان اپنے ہی آشیانے کے ملبے پر بیٹھا حکومتی امداد کا منتظر ہے۔

مینگورہ کے نواحی علاقے اینگرو ڈھیرئی میں ریلا زرعی اراضی کو بہالے گیا، جہاں چاول کی فصل دریا برد ہوگئی ہے۔

وزیراعلی خیبرپختونخوا کی جانب سے پیر 29 اگست کو نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کیا گیا۔ میڈیا سے گفتگو میں وفاقی حکومت کو نشانے پر رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تصویریں کھنچوانے نہ آئیں، سندھ اور بلوچستان کیلئے اعلانات کئے ہیں، ہمیں اپنا حق لینا آتا ہے۔

مانسہرہ کے علاقے منور بیلا میں دو روز کی جدوجہد کے بعد کاغان ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے خطرناک نالے کا رخ تبدیل کردیا جس کے بعد مہانڈری بازار کو لاحق خطرہ ٹل گیا ہے۔

نوشہرہ میں دریائے کابل کے کنارے آباد دھوبی گھاٹ کالونی سے تاحال پانی نہ نکل سکا، متاثرین کو چھت تو مل گئی تاہم کیمپ میں سہولیات نہ ہونے پر وہ پھٹ پڑے۔ واضح رہے کہ دریائے کابل میں 3.36 لاکھ کیوسک پانی سے وسیع علاقہ زیر آب علاقے میں تقریبا 1.75 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

مینگورہ کے نواحی علاقے تا حال پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کمراٹ اور تھل کا زمینی راستہ بھی بحال نہ ہوسکا۔

سوات میں مینگورہ کے نواحی علاقوں سے تاحال پانی کی نکاسی نہ ہوسکی۔نشیبی علاقوں میں مکانات زیرآب ہیں جب کہ متاثرین کو بھی امداد کی فراہمی شروع نہیں ہوسکی ہے۔

محکمہ ایری گیشن نے بتایا ہے کہ دریائے سوات میں منڈا ہیڈورکس پر سیلابی پانی 1 لاکھ 20ہزار کیوسک سے کم ہوکر72ہزار کیوسک تک گرچکا ہے۔

دریائے سوات میں خیالی کے مقام پر پانی 1 لاکھ 5ہزار کیوسک سے کم ہوکر 69ہزار کیوسک پرآگیا ہے۔

دریائے جندی میں سیلاب 8ہزار 700 کیوسک سے کم ہوکر8 ہزار400 کیوسک تک نیچے آیا ہے۔

دریائے کابل میں سردریاب کےمقام پر پانی کی آمد 85 ہزارکیوسک سے کم ہوکر66ہزار کیوسک تک پہنچ گئی ہے۔

اپردیرمیں پاتراک کے مقام پر مرکزی پل بہہ جانے سے کمراٹ اور تھل کا ضلع بھر سے زمینی راستہ بحال نہ ہوسکا جس سے مقامی افراد سمیت سیکڑوں سیاحوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

اپردیر کے علاقوں سیاحتی مقام کمراٹ،بریکوٹ،بیاڑڈوگ درہ، گوالدی، جون کس میں سیلاب سے شدید تباہی ہوئی ہے۔

دوسری جانب کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین نے سیلاب سے متاثرہ مارکیٹوں اور ہوٹلوں کا معائنہ کرکےمتاثرین کوہر ممکن تعاون کی یقین دھانی بھی کرائی ہے۔

ادھرگلگت بلتستان کےضلع غذر میں مکان کے ملبے تلے دبنے والے10 میں سے6 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں۔

آزاد کشمیر کے سیاحتی علاقے شونٹھر میں پھنسے 30 سیاحوں کو ریسکیو کرلیا گیا ہے۔

اس کےعلاوہ نریل نالہ کے بہہ جانے والے پل کی مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیرشروع کردی ہے۔

دریائے کابل میں نوشہرہ کےمقام پر پانی کے بہاؤ ميں کمی آنے لگی ہے تاہم انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے باعث کئی علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

دیرکوہستان کے سیلاب سے متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ اس سیلاب کی شدت سال 2010 کے سیلاب سے زیادہ تھی اور ہر چیزسیلاب برد ہونے سے بہت نقصانات ہوئے ہیں۔ تحصیل چیرمین نے بتایا ہے کہ پاتراک میں شہریوں کیلئے پیدل راستہ بحال کرکے پل کوچھوٹے گاڑیوں کیلئےجلد بحال کیاجارہا ہے۔

ڈپٹی کمشنرکا کہنا تھا کہ سڑکوں اورپل ٹوٹنے سے کمراٹ میں پھنسے آخری سیاح تک ریسکیو کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں