سینیٹر اعظم سواتی نے کرپٹ لوگوں کے سر قلم کرنے کا مطالبہ کر دیا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم سواتی نے سی ڈی اے اور ایف بی آر کو کرپشن کی جڑ قرار دیتے ہوئے بدعنوان افراد کے سر قلم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت برائے قانون ملک شہادت اعوان نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں 117 غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں تھیں،جن کے خلاف کاروائی کی گئی ہے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی نے سی ڈی اے اور ایف بی آر کو کرپشن کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت بھی ان کے خلاف کاروائی کرنے میں ناکام رہی، کرپٹ لوگوں کے سر قلم کئے جانے چاہئیں۔

جس پر ملک شہادت اعوان نے کہا کہ ہم اپنے دور میں کرپشن بھی ختم کریں گے اور سزائیں بھی دیں گے۔

سینیٹر بہرہ مند تنگی نے رانا ثنااللہ پر تنقید کرت ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ نے 3مرتبہ میرے سوال کو مؤخر کیا،پارلیمان کی توقیر یہ ہے کہ متعلقہ وزیر سوالات کے جواب دے۔

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ شہر اقتدار میں گداگری عروج پر ہے،ہمیں اس لعنت کو ختم کرنا ہوگا،پولیس میں تحویل کی بجائے ایک کمیٹی بنائی جائے،سخت سے سخت سزا تفویض کریں۔

وزیر مملکت شہادت اعوان نے تشدد اور زیر حراست موت بل 2022 ایوان میں پیش کیا تو قائد حذب اختلاف شہزاد وسیم نے کہا کہ اس بل کے 3حصے ہیں، کہاں ہیں اسٹیٹ؟ اس بل پر وزیر داخلہ کے دستخط ہیں، شہباز گل کے ساتھ جو ہوا سب نے دیکھا،شہباز گل اپنی سانسوں کے لیے لڑ رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پورے اسلام آباد کی پولیس پمز میں ہے، ایک فاشسٹ حکومت قابض ہے،شہباز گل پر تشدد کا مقصد اپنی مرضی کا بیان ریکارڈ کروانا ہےتاکہ پی ٹی آئی اور عمران خان سے منسلک کیا جا سکے،ہم حکومت کے اس اقدام کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

دوران اجلاس تحریک انصاف کے سینیٹر شہباز گل پر مبینہ تشدد کے خلاف واک آوٹ کا اعلان کرتے ہوئے جانے لگے تو قائد ایوان سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ واک آؤٹ کیوں کررہے ہو؟ سننے کا بھی حوصلہ رکھو،بھول گئے رانا ثناءاللہ پر 15 کلو ہیروئن رکھنے کاالزام عائد کیا گیا، جس طرح شہباز گل کی انٹری ہوئی اللہ ان کو صحت دے۔

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ملک کا مجرم کیسے دھوکے سے باہر بھاگا،جعلی بھگوڑے جعلی بیمار کی آج تعریفیں کی جارہی ہیں،نواز شریف بھگوڑا اور آصف علی زرداری ایک بیماری ہے،آئیں اور عمران خان کا مقابلہ کریں۔

جس پر حکومتی سینیٹر نے احتجاج کیا تاہم چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اعظم سواتی کے الفاظ کاروائی سے حذف کرنے کی ہدایت کردی۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ کھلے عام کہا ہم افواج پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں،آج الحمدلله عمران خان بھی اسی کیٹیگری میں کھڑے ہیں۔

وفاقی وزیر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ تقسیم کی سیاست ہو رہی لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں پر کوئی بات نہیں کر رہا،آپ امریکاکو گالی گلوچ کرتے ہیں لیکن دوسری طرف اس سے معاہدہ کیا، آپ وہاں پاکستان کے ساتھ کون سی سازش کرنے جا رہے؟ سازش تو پاکستان کے ساتھ یہ ہے، تحریک انصاف اپنے جھوٹ پر عوام سے معافی مانگے۔

ایوان نے قومی شاہراہیں، حفاظتی ترمیمی بل 2022 متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی سازش کے تحت ہماری حکومت گرا کر کیوں کرپٹ ٹولے کو بٹھایا؟ بیرون ملک سازش کبھی مفت میں نہیں ہوتی، وزیر خارجہ اس ایوان میں 4ماہ سے جلوہ گر نہیں ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہباز گل کی باتیں پارٹی کا بالکل مؤقف نہیں،جو باتیں غلط ہیں اس پر قانون کے مطابق جو بنتا ہے کیا جائے، اگر مجھ پر تشدد کیا جائے تو ہوسکتا ہے میں لیاقت علی خان کے قتل کا بھی اعتراف کرلوں گا۔

دوسری جانب حراست میں تشدد، موت سے تحفظ اور سزا کا بل سینیٹ میں پیش کردیا گیا۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والا بل “حراست میں تشدد، موت سے تحفظ اور سزا کا بل 2022 “ ایوان میں پیش کیا گیا ، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا بل کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔

بل کے مطابق پاکستان تشدد، ظالمانہ اور غیرانسانی سلوک کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کو تسلیم کرچکا ہے، جو زیرحراست ہرفرد کی عزت کے تحفظ کا پابند بناتا ہے، ہر شہری کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے منصفانہ ٹرائل ہر شہری کا حق ہے۔

بل کا مقصد تشدد کے عمل کوجرم قرار دینا اور مرتکب افراد کو سزا دینا ہے، بل کا مقصد سرکاری اہلکاروں کی تحویل میں نشانہ بننے والوں کو انصاف فراہم کرنا ہے۔

زیرحراست ملزم سے تشدد کے ذریعے لیا گیا اعترافی بیان عدالت میں قابل قبول نہیں ہوگا، اہلکار کو ایک سال قید یا ایک لاکھ روپیہ جرمانہ کی سزا دی جا سکے گی، ریمانڈ دینے والے مجسٹریٹ سے اگر تشدد کی شکایت کی جائے گی تو وہ طبی معائنے کے احکامات جاری کرے گا اور اگر تشدد ثابت ہوگیا تو اس کی تحقیقات کروائے گا۔

ذمہ دارسرکاری اہلکارکی گرفتاری سے متعلق 24 گھنٹے کے اندرآگاہ کرنا ہوگا، اسے فوری طورپرمعطل کیا جائے گا یا اس کی ذمہ داریاں تبدیل کردی جائیں گی، اہلکار کے خلاف 7دن کے اندر محکمانہ انکوائری مکمل کی جائے گی، اہلکار سے کسی جرم کی تفتیش نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی نگرانی میں کی جاسکے گی۔

بل کے تحت کسی ملزم کی تلاش کے لیے کسی خاتون کو تحویل میں نہیں لیا جاسکے گا،نہ اس سے ثبوت حاصل کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں