ہم ایوان میں 172 سے زائد ووٹ حاصل کریں گے، متحدہ اپوزیشن کا اعلان

متحدہ اپوزیشن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ و جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پاکستان پیپلزپارٹی کے صدر آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں 172 سے زائد ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ کل پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام(ف) اور مسلم لیگ(ن) اور ہمارے ساتھ منسلک اتحادی پارٹیوں کی طرف سے ہم نے مل کر مشاورت کی اور ہم نے فیصلہ کیا کہ آج ہم تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع کروائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کو خفیہ رکھا تھا اور اس کی سب نے پاسداری کی، آج تمام جماعتوں نے ریکویزیشن اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپنے اراکین سے دستخط لیے اور آج ہم نے اس کو جمع کرا دیا ہے۔

ان کا کہناتھا کہ پونے چار سال بعد اس تحریک عدم اعتماد کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ اس سلیکٹڈ حکومت اور وزیراعظم نے جو کچھ اس ملک کے ساتھ معاشی، سماجی، معاشرتی حوالے سے کردیا ہے اس کی نظیر پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، قرضے لے کر ملک کے 22کروڑ عوام اور ہماری نسلوں کو گروی رکھ دیا گیا ہے اور ان کھربوں کے عوض بھی اس ملک میں ایک بھی نئی اینٹ لگی ہوئی نظر نہیں آتی۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح سے چین کے حوالے سے سی پیک کو نشانہ بنایا گیا، حکومت میں آںے سے قبل عمران خان اور ان کے موجودہ وزرا نے کیڑے نکالے، کرپشن کی باتیں کیں، چین پر بے الزامات لگائے اور تنقید کی، چین جیسے دوست کو ناراض کہاں کی خارجہ پالیسی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب ہمارا بہترین دوست ہے جبکہ میلسی میں تقریر کے دوران انتہا کردی اور بیٹھے بٹھائے ہمارے یورپی یونین اور دوسرے ممالک کو ناراض کردیا، سب کو پتہ ہے کہ پاکستان یورپ اور شمالی امریکا میں اربوں ڈالر کی تجارت کرتا ہے اور آپ نے بیٹھے بٹھائے کارتوس چلا دیے، انہوں نے جو زبان استعمال کی وہ انہیں زیب نہیں دیتی۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے 22کروڑ عوام کی خواہش پر کیا جو اس حکومت کے خلاف دست با دعا ہے لہٰذا اس کو غیرملکی سازش قرار دینا احمقانہ اور بات اور بے بنیاد الزام ہے۔

اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں اس حکومت سے کوئی خوش فہمی نہیں تھی، جب سے انہوں نے این جی اوز کے ذریعے سے مغربی تہذیب کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی تو ہم نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ پاکستانی نہیں ہے، یہ کسی بیرونی ایجنڈے کا ایجنٹ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 2018 انتخابات کے ایک ہفتے کے اندر اندر ایک متفقہ مؤقف تیار کر لیا تھا کہ الیکشن ناجائز ہوا ہے، عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے اور ہم اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے بعد تحریک کا آغاز ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی ریلیوں اور مارچ سے ان سلیکٹڈ حکمرانوں کے اصل چہروں کو بے نقاب کیا ہے، ہم قوم کے سامنے شرمندہ نہیں ہیں، ہم نے جو کہا تھا وہ ایک ایک بات حقیقت بن کر عام آدمی کے سامنے موجود ہے اور ہر شخص یہ سمجھ رہا ہے کہ ملک انحطاط کی طرف گیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ جب 17-2018 کا بجٹ پیش کیا جا رہا تھا جو تو شرح نمو ساڑھے پانچ فیصد تھی اور اگلے سال سالانہ ترقی کا تخمینہ ساڑھے چھ فیصد لگایا گیا تھا لیکن یہ حکومت ہماری سالانہ ترقی کا تخمینہ صفر سے بھی نیچے لے آئی، ملک کی معیشت کمزور ہو گئی اور معیشت کمزور ہونے کے بعد اب کوئی ملک آپ کو پیسہ دے کر ضائع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ آج اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے اور اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں، ان کی بساط لپٹ چکی ہے اور اب کوئی آئیڈیل باتیں ان کے لیے سودمند نہیں ہوسکتیں۔

ایک سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ ہم 172ارکان کو ایوان میں لائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے 172 سے زائد ووٹ لیں گے، صرف ہم نہیں بلکہ کئی دوست بیزار ہیں، اسمبلی میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی اپنی پارٹی اور ان کے اپنے دوست بیزار ہیں، ان کو اپنے حلقوں میں جانا ہے تو وہ کیا جواب دیں گے۔

انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ جس طرح 1989 میں غلام اسحٰق خان اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود تحریک عدم اعتماد کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا، وہ الگ بات کہ غلام اسحٰق خان نے اسمبلی تحلیل کردی تھی تاہم اب اس صدر کے پاس میں نے وہ طاقت ہی نہیں چھوڑی ہے کہ وہ کوئی اسمبلی تحلیل کر سکے۔

ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ ہم بلوچستان نیشنل پارٹی سے رابطے میں ہیں، ہماری ایم کیو ایم(پاکستان) سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ہم تحریک انصاف میں بھی ان لوگوں سے رابطہ کریں گے جن کے ضمیر جاگ چکے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اگلے وزیراعظم کے بارے میں سوال پر شہباز شریف نے کہا کہ یہ تمام اپوزیشن جماعتوں کا اجتماعی فیصلہ ہو گا اور اس میں تمام جماعتوں کو اپنی رائے دینے کا پورا حق ہے، ابھی کوئی نام طے نہیں ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں