سپریم کورٹ نے کینٹ بورڈز کو نجی اسکولوں کو سیل کرنے سے روک دیا۔
سپریم کورٹ میں کنٹونمنٹ علاقوں سے نجی اسکولوں کی بے داخلی کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔عدالت نے ملک بھر کے کنٹونمنٹ بورڈز کو نوٹس جاری کر تے ہوئے جواب طلب کر لیا۔
عدالت عظمیٰ نے کینٹ بورڈز کو تاحکم ثانی کینٹ ایریا میں بنے ہوئے نجی اسکولز کو سیل کرنے سے بھی روک دیا۔
وکیل عدالت کو بتایا کہ کینٹ بورڈز میں 8300 نجی اسکول قائم ہیں اور ان اسکولوں میں 37 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔سکولوں کو سیل کیا جا رہا ہے، بچے کہاں جائیں گے
پرائیویٹ اسکولز اور طلبا کے والدین نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے نجی سکولز کو سنے بغیر فیصلہ دیا تھا۔ اصل کیس تو رہائشی پلاٹ پر سکول بنانے کا تھا۔کیس میں موقف سنے بفیر سخت حکم جاری کیا گیا۔
عدالت نے کینٹ بورڈز سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ کے اس حالیہ حکم سے قبل کنٹونمنٹ میں واقع کئی سکولوں کو یا تو سیل کر دیا گیا ہے یا پھر انھیں بند کرنے کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں جس نے یہاں زیر تعلیم طلبہ، اُن کے والدین اور استاتذہ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
کینٹ کے علاقوں میں نجی تعلیمی ادارے سیل کیوں کیے جا رہے تھے؟
آل پاکستان پرائیویٹ سکول اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل محمد اشرف ہراج کے مطابق ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس کے اس فیصلے سے کم از کم آٹھ ہزار تعلیمی ادارے بند ہونے کا خدشہ ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس عمل سے ان اداروں میں زیر تعلیم تیس لاکھ سے زیادہ طلبہ براہ راست متاثر ہوں گے۔ ’شعبہ تعلیم سے وابستہ متاثرہ ملازمین کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ ہے، ان میں اساتذہ، کلرکس، معاون، آیا اور گارڈز وغیرہ شامل ہیں۔‘
دوسری جانب ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن فہیم ظفر خان ان اعداد و شمار کو درست تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے مطابق ‘تعلیمی اداروں کے انخلا کے فیصلے سے محض دو ہزار سکول متاثر ہوں گے۔’ تاہم ان سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ اور ان سے وابستہ ملازمین کے اعداد و شمار کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
اشرف ہراج نے اعتراض اٹھایا ہے کہ نجی سکولوں کی بندش کے فیصلے سے قبل طلبہ کی تعلیمی ضروریات کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے، اور نہ ہی انھیں کوئی ایسا راستہ فراہم کیا گیا ہے جس سے وہ اپنے بچوں کی تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔
دوسری جانب کنٹونمنٹس علاقوں میں جن تعلیمی اداروں پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوتا اُن میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) اور فوج یا وفاقی حکومت کے زیر انتظام دوسرے تعلیمی ادارے ہیں۔ تاہم ان میں داخلہ لینا ایک عام شہری کے لیے آسان نہیں جبکہ اُن کی فیس اور دیگر اخراجات بھی متاثرہ تعلیمی اداروں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔