سراج الحق اور افغانستان کے وزیرخارجہ کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور افغانستان کے وزیرخارجہ مولوی امیر خان متقی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں دوطرفہ امور اور باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس موقع پر مولوی امیر خان متقی نے پاکستان میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس کے انعقاد کو سراہا اور افغانستان کے حوالے سے جماعت اسلامی کے مثبت کردار کی تعریف کی۔

ٹیلیفونک رابطے کے دوران سراج الحق نے افغان وزیرخارجہ کو پاکستانی قوم اور جماعت اسلامی کی طرف سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔

واضح رہے اس سے قبل افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ ملا امیر متقی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں امن اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان عوام ہمارے ساتھ ہیں، 40 سال میں سارے افغانستان میں ایک ہی حکومت حاکم ہے ، ہم نے سب کے جزیرے اور طاقت کو ختم کیا ، ہم نے داعش کو کنٹرول کیا اور دیگر گروپس کو بھی اجازت نہیں کہ وہ افغان سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال کرے۔

ملا امیر متقی کا کہنا تھا کہ ہمارا دنیا سے وعدہ ہے کہ کوئی بھی ہو، وہ افغان سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا، ہمارے لوگ ہمارے ساتھ ہیں، ہم ان کی مدد سے سارے افغانستان کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور ہم نے یہ ثابت بھی کیا ہے جب کہ یہاں پر امریکہ اور نیٹو سمیت 50 ممالک کی افواج موجود تھیں، لیکن افغانستان میں امن نہیں تھا۔

افغان وزیرخارجہ نے کہا تھا کہ داعش یا کوئی اور لوگ کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ افغان لوگ امن چاہتے ہیں، ہماری سیاست آج کل ایک متوازن سیاست ہے ، ہمارا جھکاو کسی ایک طرف نہیں ہے بلکہ ہمارے تمام مسلم اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، پاکستان کے ساتھ بہت ہی اچھے تعلقات ہیں۔

ملا امیر متقی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کسی ملک کے مفاد کے لیے یا کسی کے مفاد کے خلاف کام نہ کریں اور صرف اپنے مفادات کا تحفظ کریں ، افغانستان میں اب کوئی زمینی جنگ نہیں، لوگ خوش ہیں ، یہ جنگ صرف میڈیا دکھاتا ہے، افغان لوگ 40 سال سے پریشان تھے، بعض ممالک ہم سے حسد کرتے ہیں اور وہ ہمارے مفاد کے خلاف بات نہیں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ نے افغان طالبان کے لیے زندگی تنگ کی، گوانتے نامو بے، بگرام اور دیگر جگہوں پر افغانوں کے انسانی حقوق ختم کیے ، امریکی رویہ یہ تھا کہ انہیں مرنا ہے، اب ہم ان ہی لوگوں کو تحفظ دے رہے ہیں ، افغانستان سے جو ملک واپس چلے گئے، وہ امن و امان کی وجہ سے نہیں گئے کیوں کہ اس وقت افغانستان میں امن و امان کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ٹی ٹی پی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی جماعت یا گروہ کو افغان سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ، افغانستان اب پہلے والا افغانستان نہیں، ہم انسانی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں، اسلام کسی کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دیتا ، کسی کو تشویش کی ضرورت نہیں، ہم ذمہ دار لوگ ہیں، جو وعدہ کیا پورا کریں گے ، افغانستان میں خشک سالی ہے، اس کے برے اثرات کا خطرہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں