اسلام جس طرح بڑوں ، بوڑھوں اور بزرگوں کی عزت کرنے اور اُن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی تعلیم دیتا ہے ، اسی طرح چھوٹے،کم سن اور معصوم بچوں کے ساتھ بھی شفقت و مہربانی اور حسن سلوک کی ترغیب دیتا ہے۔جس طرح ہمارے بڑے، بو ڑھے اور عمر رسیدہ بزرگ حضرات ہماری توجہ کا مرکز ہیں، اسی طرح ہمارے کم سن ، چھوٹے اور معصوم بچے بھی ہمارے لاڈ پیار، شفقت و محبت اور حسن سلوک کے حق دار ہیں۔
بچوں کی تربیت والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ تربیت کیسے کرنی ہے یہ بات یقینا اہمیت کی حامل ہے۔ بچوں کی تربیت میں اگر چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو یقینا ان کی شخصیت پر اس کا بہت مثبت اثر پڑتا ہے اور ان کو پھلنے پھولنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔
بچوں کا نام ان کی شخصیت پر بہت اثر ڈالتا ہے، ان کو اچھے ناموں سے پکاریں ۔ عموماً گھروں میں بچے کو کسی ایک مخصوص نام سے پکارا جاتا ہے۔ وہ نام ایسے ہوں جو بچے کو خوشگوار احساس دیں اور انہیں ہتک محسوس نہ ہو۔ بات بات پر مسلسل وضاحت طلب کرنے سے بچہ چڑچڑا اور بدتمیز ہو جائے گا۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ وہ جھوٹ بولنا بھی شروع کردے گا، لہٰذا غیر محسوس طریقے سے بچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھئے اور دوستانہ انداز میں سوال کیجئے۔ ڈرانے اور دھمکانے کے بجائے اچھے اور مثبت الفاظ سے انہیں سمجھائیں۔ یہ انداز ان میں نمایاں تبدیلی کا باعث بنے گا۔
منفی سوچ، جیسا کہ ڈرانا، دھمکانا، اس سے بچہ ہر وقت خوف میں مبتلا رہتا ہے اور اس سے بچے کی نشوونما پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے ۔ بے جا سختی اور ہر بات پر نہ بولنا اصل وقت پر نا بولنے کی اہمیت کو کھو دیتا ہے، اگر کوئی بات ان کے لئے مناسب نہیں تو، انہیں پیار سے سمجھائیں کہ ان کے حق میں کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ اگر کبھی وہ آپ کی بات نہ مانیں تو مار پیٹ کے بجائے ان کو نظراندازکریں اور کسی دوسرے کام پر لگادیں تاکہ وہ اس وقت اس بات کو بھول جائیں۔ انہیں احساس دلائیں کہ آپ کو ان سے کیا امیدیں ہیں۔ ضروری نہیں بچہ آپ کی ہر نصیحت من و عن قبول کرے ،اس سے غلطیاں بھی ہوں گی مگر ان غلطیوں پر آپ کا طرزِ عمل کتنا مثبت یا منفی ہے، اس سے بچے کی آگے کی زندگی کی کامیابی یا ناکامی طے ہو گی۔ بچوں کو بہترین تعلیم و تربیت دیں انہیں معاشرے کا مفید اور کارآمد شہری بنائیں۔
دنیا کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ بچے عدم تحفظ کے احساس سے خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں احساس دلائیں کہ آپ ان کے بہترین دوست ہیں۔ آپ ہمیشہ ان کا ساتھ دیں گے، اوران کا ہر مسئلہ حل کر دیں گے۔ وہ ہر بات آپ سے آرام شیئر کر سکتے ہیں، پھر اگر وہ کوئی مسئلہ آپ کے پاس لائیں تو اس پر ایک دم سے طیش میں نہ آئیں بلکہ اسے خوش اسلوبی سے حل کریں۔ بچے سے پیار سے بات کریں اور سمجھائیں ، ورنہ بچہ آہستہ آہستہ آپ سے ہر بات چھپانے لگ جائے گا۔
بچے اگر بڑے ہوں تو ان سے گھریلو معاملات میں مشورہ لیں، بچوں کو کہیں لے کر جائیں تو ان سے پوچھ کر ان کا من پسند کھلونا لیں تاکہ ان میں فیصلہ سازی کی صلاحیت پیدا ہو۔ اس طرح ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا اور قائدانہ صلاحیت پیدا ہوگی۔
ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے اپنے چہرے کے تاثرات سے ظاہر کریں کہ آپ کو اس کی کوئی بات پسند نہیں آٓئی یا آپ ناراض ہیں۔ بچوں کو ان کے دوستوں کے سامنے ہر گز نہ ڈانٹیں۔ بچوں کے احساسات بہت نازک ہوتے ہیں۔ ان کے دوستوں کے سامنے ہمیشہ اپنے بچوں کا اچھا تذکرہ کریں۔ دوستوں کے سامنے تذلیل سے بچوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو پھر وہ آپ کو بھی خاطر میں نہیں لائیں گے۔ بچوں کی ذہن سازی اس طرح کریں کہ انہیں مثبت سوچ کا عادی بنائیں۔ ہر چیز میں مثبت پہلو اجاگر کریں۔ انہیں منفی سوچ سے دور رکھیں۔
بچوں کے سامنے خاندانی سیاست پر بات نہ کریں۔کسی ایسے شخص سے جس سے آپکی ناراضگی ہو ، اس کےلئے اپنے بچوں کے دل میں نفرت نہ ڈالیں کیونکہ بچے بہت کچے ذہن کے ہوتے ہیں اور بچپن میں سکھائی گئی باتیں تمام عمر ان کے ذہنوں میں نقش رہتی ہیں اور پھروہ بڑے ہوکر ان ہی رویوں پر عمل کرتے ہیں ۔
بچوں سے ہمیشہ برابری کا سلوک کریں۔ ایک بچے سے زیادہ پیار اور دوسرے سے کم، یہ چیز بچوں کو احساس محرومی میں مبتلا کردیتی ہے۔ جب بچے کو گھر پر توجہ نہ ملے تو وہ ادھر ادھر سے توجہ حاصل کرنے کا منتظر رہتا ہے جو ذیادہ خطرے کی بات ہے کیونکہ اکثر لوگ اس بات کا غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
محبت کی بنیاد، بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کرنا، بنیادی انسانی اور اسلامی طریقوں میں سے ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بچوں سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے اور ان سے اچھا سلوک کرتے تھے اور ہمیشہ فرماتے “بچوں سے محبت کرو اور ان کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آو “۔
والدین کو چاہیے کہ وہ قلبی طور پر اپنے عمل سے بچوں کو یہ یقین دلائیں کہ وہ انہیں دوست سمجھتے ہیں، ان کی یہ بات بچوں پر مثبت اثر ڈالے گی اور کچھ ہی عرصہ میں اس کا نتیجہ سامنے آ جائے گا۔
والدین، بچوں میں ایسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں جو ان کی ذات کو تعمیر کرے اور مخصوص اعتقادات ان کے اندر جنم لیں تو ظاہر ہے کہ یہ کام بغیر محبت اور دوستی کے کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ جس کا مقصد انہیں رشد و کمال کی طرف لے جانا ہے۔
بچے پر تعریف اور تنقید یکساں انتہائی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر آپ بچے کو تعریفی جملوں سے نوازیں گے تو اس کے اندر مثبت تبدیلی اجاگر ہو گی۔ کچھ اچھا کر کے آپ کو خوش کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ اسے مسلسل تنقید اور طعنوں کی زد میں رکھیں گے تو وہ مایوسی کی کیفیت میں جا پہنچے گا۔ احساس کمتری کا شکار ہوکر زندگی بھر کے لیے خود اعتمادی کھو دے گا۔ کوشش کریں اپنے بچوں کو اچھے القابات سے پکاریں اور برے القابات سے نوازنے سے پرہیز کریں ورنہ آپ کا بچہ نکما، خودسر اور بدتمیز بھی بن سکتا ہے ۔
جو آپ اسے بنانا چاہتے ہیں اس سے ویسی ہی باتیں کریں۔ جیسا کہ میرا بچہ تو بہت سمجھدار، بہت ذہین اور بہت تمیزدار ہے۔ اس سے اس کی شخصیت میں نکھار آئے گا اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا ۔ ایسی بہت سی دیگر باتیں ہیں جن کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے تو موبائل اور کمپیوٹر پر وہ کیا کر رہے ہیں۔ اس کا خیال رکھنا آپ کی ہی ذمہ داری ہے۔
یہ بات تو ثابت شدہ ہے کہ بچوں کو دیا جانے والا پیار دراصل والدین کا اپنی ذات پر جبر اور بچوں کی غلطیوں کو نظرانداز کرنے کا ثمر ہوتا ہے۔ اگر والدین یہ اپنی ذات تک برداشت کر لیں تو ان کا یہ مثبت رویہ ان کی آئندہ نسلوں میں بڑی آسانی سے منتقل ہوتا چلا جائے گا۔ ہمیں اپنے بچوں کو ایسی راہ پر گامزن کرنے کی سعی کرنی چاہیے جو کہ کل کو اس معاشرے کے لیے کسی فائدہ کا موجب بنے نہ کہ ہمارے بچے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مشکلات اکھٹی کرتے دکھائی دے رہے ہوں۔
سندس رانا، کراچی