کرک مندر حملہ کیس: ایک ماہ میں ملزمان سے 3 کروڑ 30 لاکھ روپے وصول کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے کرک مندر حملہ  کیس میں ایک ماہ میں حملے میں ملوث ملزمان سے رقم وصول کرنے کا حکم دے دیا

سپریم کورٹ نے چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا  کورقم وصولی کا حکم دیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ایک ماہ میں 3 کروڑ 30 لاکھ روپے سے زائد رقم ہر ملزم میں برابر تقسیم کرکے وصول کریں۔

خیبرپختونخوا حکومت نے کیس میں ملزمان سے رقم وصول کرنے پر اعتراض اٹھایا ۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کا  کہنا تھا کہ ابھی ملزمان کیخلاف ٹرائل چل رہا ہے۔ٹرائل کے بعد کوئی بے گناہ پایا گیا تووصول کی گئی رقم کا کیا ہوگا؟

چیف جسٹس سپریم کورٹ  گلزار احمد نے ایڈووکیٹڑ جنرل خیبر پختونخوا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،سوچ سمجھ کر بات کریں یہ عدالتی  حکم ہے۔

رمیش کمار نے عدالت کو  بتایا کہ مندر کا راستہ بند کر دیا گیا ہے،کہا جا رہا ہے مقامی علما سے بات کریں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاعلما آئیں گے تو ان سے بھی نمٹ لیں گے۔ اقلیتی برادری جتنا چاہے عبادت گاہ کو توسیع دے سکتی ہے۔ لوگ زمین دیں اورہندو برادری پورے کرک میں مندر بنانا چاہے  تو بنا سکتی ہے۔

انہوں نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہندوبرادری  نے مقامی افراد کیساتھ معاہدہ کر لیا پھر ملزمان کی ضمانت ہوگئی۔ جب ملزمان پر 3کروڑ30 لاکھ روپے برابر تقسیم ہونگے تو سب کا دماغ ٹھکانے آجائے گا

سپریم کورٹ نے رقم کی وصولی کے لیےایک ماہ کا وقت دیتے ہوئے  کیس  کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔

کرک واقعے کا پس منظر

واضح رہے کہ 30 دسمبر 2020 کو ایک ہجوم نے خیبرپختونخوا میں کرک کے علاقے ٹیری میں ایک ہندو بزرگ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی (مزار) کو نذرآتش کردیا تھا جبکہ اس کے کچھ حصوں کو منہدم بھی کیا تھا۔

خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو ہندو کمیونٹی کی جانب سے مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندو مذہب کو ماننے والے خاص طور پر سندھ سے تعلق رکھنے والے افراد یہاں آتے تھے۔

واقعے سے متعلق پولیس اور مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ سمادھی پر حملے سے قبل ٹیری کے شنکی اڈہ کے مقام پر مذہبی رہنماؤں کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا۔

عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ ہجوم کی قیادت ایک مذہبی جماعت کے حمایتوں اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے کی جارہی تھی۔

مشتعل ہجوم کے افراد یہ نعرے لگا رہے تھے کہ وہ علاقے میں کسی مزار کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گے۔

بعدازاں مذکورہ واقعے کی سوشل میڈیا پر کافی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئی تھیں جبکہ حکام نے بھی نوٹس لیتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کیا تھا اور 2 مذہبی رہنما مولانا محمد شریف اور مولانا فیض اللہ سمیت متعدد نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

جس کے بعد 31 دسمبر کو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے کرک میں ہجوم کے ہاتھوں ہندو بزرگ کی سمادھی نذرآتش کرنے کا نوٹس لے لیا تھا۔

خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کے معاملے پر دہائیوں قبل تنازع شروع ہوا تھا، 1997 میں اس جگہ کو مسمار کردیا گیا تھا تاہم 2015 میں سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو ہندو سمادھی کو بحال کرنے اور دوبارہ تعمیر کا حکم دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں