افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان کو سماجی اور معاشی سطح پر کئی بحرانوں کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے طالبان جنگجو ایسے بھی ہیں جو ساری مشکلیں ایک طرف رکھ کر سیر و تفریح میں مصروف ہیں۔
کابل کے چڑیا گھر میں موجود چڑیا گھر میں مقامی افراد سے زیادہ ملک کے کونے کونے سے آئے طالبان جنگجوؤں کا رش ہے جہاں پر سیر و تفریح کی غرض سے آئے طالبان کو جنگلوں پر جُھک کر ببر شیر دیکھتے، بندر کی حرکتوں سے محظوظ ہوتے اور پرندوں کی تصاویر لیتے دیکھا جا سکتا ہے۔
چڑیا گھر میں موجود کسی افغان طالبان میں سے کسی نے بندوق کی نال پر گُلاب اٹکا رکھا ہے تو کوئی درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بینچ پر بیٹھا موبائل فون میں مگن نظر آتا ہے۔
ایک نوجوان افغان طالبان کا کہنا تھاکہ جنگل کے بادشاہ کو چھونا تو ممکن نہیں لیکن اس کے مجسمے کے ساتھ تو بیٹھا جاسکتا ہے، یہ مجسمہ اس چڑیا گھر کے لاڈلے مرجان نامی شیر کی یاد میں امریکی مجسمہ ساز نے تراشہ تھا، مرجان 2000میں چل بسا تھا۔
خیال رہے کہ طالبان جنگجوؤں نے گزشتہ 20 سال مغربی افواج سے لڑتے ہوئے گزارے ہیں، یہ پہلا موقع ہے جب یہ آزادی سے سیر و تفریح میں مصروف ہیں۔
کابل چڑیا گھر1967 میں قائم کیا گیا تھا اور افغانستان کے ہر شہر اور علاقے کی طرح اس چڑیا گھر نے بھی جنگ کی قیمت چکائی، موٹی کھال والے یاک کے جنگلے میں کبھی ایک ہاتھی ہوا کرتا تھا جو 1993 کی خانہ جنگی میں راکٹ حملے کا نشانہ بن گیا۔
فی الحال اس چڑیا گھر کا کوئی ڈائریکٹر نہیں ہے اور انتظامیہ کے سہمے ہوئے حکام کیمرے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہیں لیکن انہیں امید ہے کہ طالبان کی جانب سے تاریخ نہیں دہرائی جائے گی۔