دل و دماغ دونوں کو توانا رکھیں، پاکستان کے سیاحتی مقامات کی سیر کریں

سیر و سیاحت سماجی، ثقافتی، اقتصادی اور تعلیمی حالات پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔سفر کرنا تقریباََ ہر شخص کا شوق ہوتا ہے۔ مشکل سے ہی کوئی ایسا انسان ہوتا ہے جسے سیرو سیاحت کا بالکل شوق نہیں ہوتا وہ نہ کہیں آنا جانا اور نہ کہیں گھومنا پھرنا پسند کرتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں، بعض لوگ تو ایسے انسانوں کو خشک مزاج سمجھتے ہیں اور ان سے زیادہ بات چیت بھی کرنا پسند نہیں کرتے کیونکہ یہ لوگ سرد مہری کا مظاہرہ کرنے سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سال میں ایک بار لازمی سیاحت کے لئے نکلنا دل و دماغ دونوں کو توانا اور ترو تازہ رکھتا ہے۔ انسان کی طبیعت میں بوجھل پن، چڑچڑاپن، غصہ، مزاج میں جھنجھلاہٹ وغیرہ ختم ہوجاتی ہے۔ دل و دماغ مثبت چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ نئے نئے خیالات جنم لیتے ہیں کیونکہ دماغ ترو تازہ ہوتا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سیر و تفریح کرنے سے انسان کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ، وہ طرح طرح کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔

۔ پاکستان کا شمار جغرافیائی محل و وقوع کے اعتبار سےدنیا کے ان خوش قسمت علاقوں میں ہوتا ہے جہاں ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیں تو دوسری جانب وسیع و عریض زرخیز میدان بھی ہیں۔ یوں تو پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے دشمن عناصر نے ملکی حالات خراب کرنے کی کوشش کی جس کے باعث غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں کمی آگئی۔ مگر اب متعدد فوجی آپریشنز کے بعد پاکستان بھر کے تمام سیاحتی مقامات مکمل محفوظ تصور کئے جاتے ہیں اور اب سیاحتی علاقہ جات میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر سال دنیا بھر سے سیاح دہشتگردی کے خطرے کے باوجود پاکستان کی سیاحت کے لئے آتے ہیں۔

۔اللہ رب العزت نے اہلِ پاکستان کو انتہائی خوبصورت خطہِ سرزمین سے نوازا ہے جہاں انڈوانچر سے بھر پور ٹوارزم ، قدرتی حسن سے مالا مال تاریخی مقامات، دلکش عمارتیں ، خوبصورت آبشاریں، سرسبز گھنے جنگلات سے بھرے پہاڑ اور وادیاں، جھیلیں اور وسیع و عریض دنیا کے مشہور صحرا شامل ہیں۔ یہاں صدیوں پرانی تہذیب کے آثارِ قدیمہ، ثقافت اور صوفی ازم بھی سیاحوں کی خصوصی دلچسپی کا مرکز ہیں۔

۔پاکستان میں سب سے زیادہ سیاحت کو فروغ 1970میں ملا، جب پاکستان تیزی سے ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا تھا اور دیگر شعبوں کی طرح سیاحت بھی اپنے عروج پر تھی۔ اس وقت پاکستان کے سب سے مقبول سیاحتی مقامات میں درہ خیبر،پشاور، لاہور، کراچی، سوات اور راولپنڈی جیسے دیگر علاقے شامل ہوا کرتے تھے، آج پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سیاحت سب سے زیادہ ہے۔

شمالی علاقوں میں گلگت بلتستان، خیبر پختونخواہ، آذاد کشمیر اور شمال مغربی پنجاب شامل ہیں۔ پاکستان کے ان شمالی علاقہ جات میںقدرت کے بے شمار حسین نظارے موجود ہیں۔ کے ٹو، نانگا پربت، چترال، گلگت، ہنزہ، مری اور کشمیر کے پہاڑی سلسے سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے۔ یہاں رہنے والے اور باہر ممالک سے آنے والے سیاح زیادہ تر شمالی علاقہ جات کی جانب سیاحت کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔وہاں کی سر سبز و شاداب وادیاں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔یہاں کے دل موہ لینے والے حسین مقامات پوری دنیا بھر میں کشش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

۔اگر ہم کشمیر کی بات کریں تو وہ اس خطے پر جنت سے کم نہیں ۔ کشمیر کی سیر کرنا مطلب جنت کی سیر کرنے کے برابر ہے۔ جون کے مہینے میں یہاں دسمبر جیسا موسم ہوجاتا ہے۔ کشمیر کا خوبصورت ترین حصہ بھارت کے قبضے میں ہے، ایک حصہ آذاد کشمیر اور دوسرا حصہ گلگت بلتستان ہے۔ یہ تمام خوبصورتی کے شاہکار ہیں۔ کشمیر کی بات ہو اور وادیِ نیلم کا ذکر نہ ہوایسا ممکن نہیں ہے، پاکستان کے سیاحوں کی پہلی ترجیح وادیِ نیلم کی سیر ہوتی ہے۔یہاں ٹھنڈے میٹھے پانی کے ابلتے چشمے، حسین و دلکش فضا، آسمان سے باتیں کرتے ہوئے اونچے اونچے پہاڑ، بلند فشار آبشاریں، ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیاں، قدرتی پھول اور لذیز پھل سیاحوں کا استقبال کرتے ہیں۔ وادیِ نیلم مظفرآباد کے شمال اور شمال مشرق میں دریائیِ نیلم کے دونوں اطراف میں واقع ہے۔

۔پنجاب ، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ یہ چاروں صوبے خوبصورتی سے مالا مال ہیں۔ مسائل اپنی جگہ ہیںلیکن یہ تمام صوبے خوبصورت دلکش جگہوں کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی جانب موڑتے ہیں۔ سندھ کے دریا، بلوچستان کے ریگستان، پنجاب کے کھیت اور خیبر پختونخواہ کے خوبصورت باغات اپنی ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ہم یہاں کچھ سیاحتی مقامات کی بات کرنا چاہیں گے جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں اور وہ یہاں آنے کا رخ کرتے ہیں۔

وادی نلتر

وادیِ نلتر گلگت سے ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے۔ نلتر وادی اپنے حسن سے بھرپور وادی ہے۔ سیاح جب اس وادی کا رخ کرتے ہیں تو انکی آنکھیں پھٹتی کی پھٹی رہ جاتی ہیں، وہ اس وادی کو دنیا کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ اگر کسی بھی شخص کو جنت دیکھنے کی خواہش ہو تو وہ ایک بار ضرور وادیِ نلتر کی سیر پر جائے۔ یہاں دنیا کا سب سے ذائقہ دار آلو کاشت کیا جاتا ہے جبکہ صنوبر کے درخت بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

شنگریلا ریزورٹ

شنگریلا اسکردو کا ایک مشہور سیاحتی مقام ہے اسے جنت کا ٹکڑا بھی کہا جاتا ہے۔ جو کہ اسکردو شہر سے بذریعہ گاڑی تقریباً 25 منٹ کی دوری پر ہے۔ یہاں دل کی شکل میں موجود کچورا جھیل بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ گرمیوں میں شنگریلا کی خوبصورتی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جبکہ سردیوں میں پورا علاقہ برف سے ڈھک جاتا ہے۔ سیاح اس مقام پر جاکر یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا زندگی کا ایک بڑا سنگِ میل طے ہوگیا۔ سات گھنٹوں کے مسلسل سفر کے دوران یہاں بہت سے پہاڑی سلسے، اسپرنگس نظر آتے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں کی مہمان نوازی آپکو خوش آمدید کہتی ہے۔ شنگریلا ریسٹ ہائوس کی خاص بات اس میں موجود ریسٹورنٹ ہے جو کہ ایک ایئر کرافٹ کے ڈھانچے میں بنایا گیا ہے۔

وادی کالاش

کالاش ویلی صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چترال میں واقع ہے۔ یہ وادی سطحِ سمندر سے ایک ہزار128میٹر بلندی پر واقع ہے اور یہاں کی کل آبادی 9 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ اپنے پر فضا مقامات اور خوبصورت وادیوں کی وجہ سے یہ مقام پوری دنیا میں پسند کیا جاتا ہے۔ یہ قبیلہ کالاش زبان بولتا ہے جو دردی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان اس خطے میںنہایت جداگانہ مشہور ہے۔ ان کی ثقافت ہم لوگوں سے بالکل مختلف ہے اسی وجہ سے انکی ثقافت کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے۔ یہاں 12 مئی کو انکا خاص تہوار جسے”چلم جوشت” کا نام دیا جاتا ہے منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر سیاحوں کی بڑی تعداد وادیِ کالاش کا رخ کرتی ہے۔ اس تہوار پر نئے کپڑے پہن کر رقص کیا جاتا ہے، بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں اور نئی رسموں کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ چلم جوشت تہوار کے پہلے دن گھروں کی سجاوٹ کی جاتی ہے، پورے وادیِ کالاش کو سجایا جاتا ہے پھر دوسرے دن دودھ تقسیم کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ یہ نئے قسم کا تہوار دیکھنے کے لئے ملک بھر سے سیاح یہاں آتے ہیں۔

دیو سائی کا میدان

مغربی ہمالیہ سے متصل دیو سائی کا میدان آٹھ ماہ تک برف کی دبیز تہہ کے نیچے دبا رہتا ہے مگر یہ برف پگھلتی ہے تو اتنے رنگ کے پھول لہلہاتے ہیں کہ انسان حیرت کی تصویر بنا انہیں دیکھتا رہتا ہے۔ 300 کلو میٹر کے رقبے پر محیط دیو سائی کا میدان شمالی علاقوں کی روایت کے برعکس درختوں سے بالکل محروم ہے مگر سبزے کی چادرپر ہزار رنگ کے پھول سیاحوں کے لئے دلچسپی کا سامان رکھتے ہیں۔ یہ تبت کے بعد دنیا کا سب سے اونچا اور وسیع میدان ہے۔ یہاں پر شیوشر جھیل بھی موجود ہے جو دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔

گورکھ ہل

صوبہ سندھ میں ایک مقام ایسا ہے جہاں برفباری ہوتی ہے۔ یہ جان کر لوگوں کو بڑی حیرت ہوگی کیونکہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں سندھ ایک ایسا واحد صوبہ ہےجہاں برفباری تو دور سردی بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ لیکن گورکھ ہل میں واقعی برفباری ہوتی ہے۔ 2008 میں یہاں کی تمام پہاڑیاں برف کی تہہ سے ڈھک گئی تھیں ۔گورکھ ہل سطح سمندر سے 5688 فٹ بلند ایک دلکش مقام ہے اور یہ کیر تھر پہاڑی سلسے کا حصہ ہے جس نے مغرب سے سندھ کی سرحد کو بلوچستان سے ملا رکھا ہے۔ گورکھ ہل پر سیاحوں اور سرکاری مہمانوں کے لئے کلچر ڈیپارٹمنٹ کے ریسٹ ہائوس کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔

ایوبیہ

ایوبیہ سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع نیشنل پارک ہے جس کا رقبہ آٹھ ہزار ایک سو چودہ ایکڑ ہے۔ اسے 1984 میں تعمیر کیا گیا جبکہ 1991 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا ۔ اس کا نام پاکستان کے دوسرے صدر ایوب خان کے نام پر ایوبیہ رکھا گیا ۔ چار مختلف پہاڑی مقامات گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، خیرا گلی اور خانسپور کو ملا کر ایوبیہ تفریحی مقام بنایا گیا۔ اسکا پرانا نام گھوڑا ڈھاکہ ہے۔ ایوبیہ کے زیریں علاقوں میں دستیاب خوبصورت جھرنے اور بل کھاتے راستے سیاحوں کی تفریح کا سامان ہیں۔ ایوبیہ کے نشیب و فراز راستوں سے ہوتے ہوئے ہر سال ہزاروں ملکی و غیر ملکی سیاح کالا بن واٹر فال کا رخ کرتے ہیں جو قدرت کے حسین شاہکار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کالا بن واٹر فال ایوبیہ سے تقریباً 13 کلو میٹر فاصلے پر موجود ہے۔ یہاں پہاڑوں پر برف جمی رہتی ہے جس کے مزے سیاح یہاں لینے آتے ہیں ۔ برفباری ایوبیہ کو مزید خوبصورت بنادیتی ہے۔ سیاح چیئر لفٹ کی سیر بھی کرتے ہیں اور حسین مناظر کو کیمر کی آنکھ میں قید کرتے ہیں۔

جھیل سیف الملوک

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو خوبصورت مقامات سے نوازا ہے ۔ جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے اتنا کم ہے۔ ایسی ایسی دلفریب جگہیں ہیں جہاں اشرف المخلوقات اپنے حواس قابو میں نہیں رکھتے اور وہ خدا کی قدرت کو بس حیرت سے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ایسی ہی ایک انتہائی خوبصورت جگہ جسکا نام میں آپکو یہاں بتاتی چلوں وہ کوئی اور نہیںجی ہاں وہ جھیل سیف الملوک ہی ہے۔ جھیل سیف الملوک وادیِ کاغان کے علاقے ناران میں 10 ہزار 578 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ جھیل سیف الملوک دنیا کی خوبصورت ترین جھیلوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ اپنے نام سے ہی دلکش اور دلفریب لگتی ہے۔ اسکا راستہ ناران سے بہت قریب ہے آپ چاہیں تو پیدل بھی سفر کر سکتے ہیں۔ یہاں پریاں آسمان سے اترتی محسوس ہوتی ہیں۔ ہر آنے والے سیاح کی نظر جیسے ہی اس جھیل پر پڑتی ہے اسکی نگاہیں وہیں ٹھہر جاتی ہیں۔ وقت تھم جاتا ہے ایسا لگتا ہے کسی سحر میں جکڑ لیا گیا ہو۔ یہ ایک ایسی طلسماتی جھیل ہے جو اپنے اندر بے پناہ پراسراریت رکھتی ہے۔ جھیل پر کچھ بزرگ داستان گو لوگوں کو جھیل سے متعلق رومانوی کہانیاں سناتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بزرگ پیسے لیکر کہانیاں سناتے ہیں اور اس ملنے والی آمدنی سے اپنے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں۔ صبح کے وقت ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس بھی اس میں پڑتا ہے۔

وادیِ آڑن کیل

آڑن کیل آذاد کشمیر کا ایک بلند مقام ہے۔ یہ وادی پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان چوٹی پر نئی نویلی دلہن کی طرح خوبصورتی میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔ انتہائی پرفضا مقام، جنت نظیر وادی اور دور دراز سے آنے والے سیاحوں کے لئے ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ وادیِ آڑن کیل مظفر آباد سےتقریباً دو سو اٹھائیس کلو میٹر پر ہے،آٹھ گھنٹے کی مسافت، اونچائی تقریباً بائیس سو چون میٹر ہے۔ وادیِ آڑن کیل کی دریافت کے متعلق وہاں کے رہائیشوں کا کہنا ہے کہ وادیِ کاغان سےمغل قبیلے کے چند لوگ آگئے انہوں نے ہی یہ راستہ تلاش کیا اور یہاں آکر ٹھہرے۔ یہ ایک خوبصورت میدانی علاقہ ہےاس کے ارد گرد بلند و بالا پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔ وہاں ایک ہیلی پیڈ بھی موجود ہےجو ایمرجنسی کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں کے رہائشی خود اپنے ہاتھوں سے لکڑی کے گھر بناتے ہیں۔یہاں ناران اور کاغان کی نسبت کھانوں کا معیار اچھا ہوتا ہے، ذائقے دار کھانے ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگ مہمان نوازی میں بھی آگے آگے رہتے ہیں، خاص کر جب کوئی سیاح یہاں کی سیر کرنے آتا ہےتو اسکی خوب خاطر مدارت کرتے ہیں۔

سیاحت جہاں علم میں اضافے کا باعث ہے وہاں ہمارے لئے غور وفکر کے لئے دروازے کھولتی ہے۔ آسمان کو چھوتی برف پوش پہاڑی چوٹیاں، خوبصورت آبشاریں، چشمے، سرسبز پہاڑ اور وادیاں، رومان خیز جھیلیںہمیں رب رحمان کی طرف بلاتی ہیں اور رب کائنات کے بہترین تخلیق کار اور خالق کائنات ہونے کے بارے میںآگاہ کرتے ہوئے پیغام دیتی ہیں کہ یہ تو خالق کی دنیا ہے، جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ہمیں بطور پاکستانی شہری اس ملک کو صاف ستھرا رکھنا ہوگا، سیاحت کو محفوظ بنانا ہوگا۔ پاکستان کے جتنے بھی سیاحتی مقامات ہیں انکی حفاظت کرنی ہوگی۔ شدت پسند عناصر جو ہر وقت پاکستان کو تباہ وبرباد کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں ان کے منصوبوں کو ناکام بنا کراپنے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔ سیاحت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہئے تاکہ غیر ملکی ٹورسٹ یہاں بنا کسی خوف کے آکر سیر و تفریح کرسکیںاور پاکستان کے دلکش مقامات جو جنت سے بھی زیادہ حسین ہیں انہیں دیکھ کر انجوائے کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھے اور اس ملک پر اپنی رحمت برساتا رہے۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں