اس سال چودہ اگست کو پاکستان 74سال کا ہو جائے گا، سرکاری اور سیاسی سطح پر74سالہ جشن پورے جوش و جذبے سے منایا جائے گا، آتش بازی اور نگا رنگ تقریبات ہوں گی۔ 74سالہ جشنمنانے پر یقینا اربوں کا خرچ ہو گا زندہ قومیں اپنے یوم آزادی کو بھرپور طریقے سیمناتی ہیں۔جشن اچھل کود تفریح تماشے کا نام ہے یوم آزادی ایک تاریخی اور یادگاردن ہوتا ہے جسے پوری متانت اور سنجیدگی سے منایا جانا چاہیے۔ سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے آزادی کی تحریک دوہرائی جائے اس دن موجودہ نوجوان نسل اور آنے والی نسل کو حصول آزادی کے لیے جو قربانیاں دی گئی ہیں اور اس آزادی کی جو قیمت ادا کی گئی ہے بتایا جائے تاکہ نوجوان نسل اپنی اس آزادی کو عام سی بات نہ سمجھیں ان کے علم میں ہو کہ اس آزادی کے لیے کتنی جانیں قربان ہوئیں۔کتنے جاگیریں اجڑیں، کتنی عزتیں پامال ہوئیں۔ہماے بزرگو ں کوآگ اور خون کا دریا عبور کرنا پڑا تب جا کرآزادی نصیب ہوئی۔پٹاخوں اور رنگ برنگی جھنڈیوں پر پیسہ خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ بیوہ عورتوں کی نگہداشت اور حصول علم کے لیے مستحق کی مدد پر بھی خرچ کیا جائے۔آزادی کے دن کو عید کی طرح منانا چاہیے کہ اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ بے کس اور بے بس کو اچھے کھانے میں شریک کیا جاتا ہے۔ آزادی کا دن اس طرح منایا جانا چاہیے کہ کم از کم ایکصبح یعنی14اگست کی صبح 20کروڑ لوگوں میں کوئی بھوکا نہ رہے۔کسی کی آبرو نہ لٹے۔ کیا کوئی ضمانت دے سکتا ہے کہ 14اگست کو کوئی ڈاکہ نہیں پڑے گا۔ کوئی رشوت نہیں لے گا، کسی کی آبرو ریزی نہیں ہو گی۔ اگر یہی سب کچھ ہونا ہے تو پھر کیسا جشن آزادی؟بد قسمتی تو دیکھئے کہ آزاد پاکستان میں نماز جمعہ اور نماز عیدین رینجرز کے پہرے میں پڑھی جاتی ہیں۔کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟آزادی -آزادیِ فکر کا نام ہے۔ آزادی – آزادی ِحیات کا نام ہے۔آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کے حصول کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ بہت قربانیا ں دینی پڑتی ہیں اور جب مل جاتی ہے تو اس کے لیے روز لڑنا پڑتا ہے۔اپنے آپ سے، افکار و حالات سے کہ پھر آزادی نہ کھو بیٹھیں۔آزادی کی حفاظت کے لیے ہر طلوع ہونے والا سورج جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔اور جو نہیں کر سکتے وہ آزاد نہیں رہتے۔
سڑکیں، عمارتیں، پل، انڈرپاسز، اوور ہیڈ برج اور پارک بنانے سے ملک ترقی نہیں کرتا۔ یہ تمام چیزیں ضرورت کے تحت بنائی جاتی ہیں ان کاموں کی تکمیل پر کسی بھی حکومت کا عوام پر کوئی احسان نہیں ہے۔کیونکہ ان تمام سہولتوں کی حکومت کو بھی ضرورت ہوتی ہے۔کیا ہمار ا ملک ڈنمارک، سویڈن، ناروے، چین،کوریا، جرمن اور عرب ممالک جیسا بن گیا ہے میں نے ان ممالک کی مثال اس لیے دی ہے کہ 74سال پہلے ان ممالک کے حالات بھی بہت خراب تھے۔آج ان ممالک کی ترقی دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ان سے برسوں پیچھے ہے اور دور دور تک ان ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
موجودہ پاکستان قائداعظم کا پاکستان نہیں قائداعظم پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست دیکھنا چاہتے تھے لیکن بد قسمتی یہ ہوئی کہ آزادی کے بعد مخلص قیادت ہما را ساتھ چھوڑ گئی اور پھر کوئی اس پائے کا لیڈر پیدا نہ ہوا۔ کچھ لوگ یقینا نیک رہے ہوں گے لیکن قائدانہ صلاحیتوں کی کمی آڑے آئی اور کبھی صلاحیت تھی لیکن نیک نیتی کے فقدان نے درست سمت میں چلنے سے روکے رکھا۔ انہی رویوں کی وجہ سے آدھا ملک کھو دیا اور قومی وقار کو داؤ پر لگا دیا۔اب سوال یہ ہے کہ یہ رویے ہمارے معاشرے کا حصہ کیوں بنے۔اس کی سب سے بڑی وجہ مذہب سے دوری ہے۔ہم نے اسلام کے زریں اصول چھوڑے اور چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اپناتے رہے۔رشوت اور ناجائز ذرائع سے آمد ن کی ضرورت ہی تب پڑی جب ہم نے سادگی چھوڑی اور حرص کے مقابلے کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ حرام اور حلال کی تمیز ہی ختم ہو گئی۔محنت کی عادت تو ہم نے حکمرانوں سے لے کرمزدور تک نے چھوڑ دی لیکن پھر بھی میرا یقین ہے کہ جس دن اس قوم نے تہیہ کر لیا اسے کچھ کرنا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں روک سکتی۔اس کی زندہ مثال ایٹم بم بنانا ہے۔اپنے کم وسائل اور بے شمار قومی اور بین الاقوامی مسائل کے باوجود یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں تو ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔
آئیے یہ 14اگست اس عہد کے ساتھ منائیں کہ ہم نے اس وطن کو عظیم سے عظیم تر بناناہے۔قوم کا ہر فرد اپنے اپنے شعبوں میں خلوص نیت سے کام کرے اور یہ سوچ لے کہ ہم نے رشوت نہیں لینی ہے ہر شخص نے اپنا کام ایمانداری سے کرنا ہے، ہم نے چور بازاری نہیں کرنی ہے، عدالتوں میں انصاف پر مبنی فیصلے کرنے ہیں۔حکومت برائے خدمت کرنی ہے برائے حصول زر نہیں۔سیاست برائے عوام کرنی ہے، برائے حرام نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم کے ہر بچے کو تعلیم یافتہ بنانا ہے۔ اپنی ثقافت کا ماڈرن ازم اور روشن خیالی کے نام پر داغدار نہیں کرنا۔مذہبی منافرت پھیلانے سے گریز کرنا ہے بلکہ پھیلانے والوں کو مسترد بھی کرنا ہے۔تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی عظمت رفتہ بحثیت ایک ملک، ایک قوم بحال نہ کر سکیں۔ 14اگست کا تقاضہ ہی یہ ہے ورنہ جھنڈیا ں اور بیجز لگانے سے یوم آزادی نہیں منایا جا سکتا۔یوم آزادی ان شہیدوں کے لہو کو سلام کرنے کا دن ہے جنہوں نے اپنے خون سے اس چمن کی آبیاری کی۔یہ دن اقبال کو سلام کرنے کا دن ہے جنہوں نے مسلمانان ہند کو یہ دولت یقین دی کہ
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے۔اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
یہ دن قائد اعظم کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اسلامی ریاست حاصل کی۔ اللہ اس ملک کو قائم و دائم رکھے اور ان روحوں کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کر دیا تھا۔پاکستان زندہ باد۔
مجاہد الآفاق، گلشن اقبال، کراچی