پاکستان میں کم عم میں شادی کرنا عام بات سمجھی جاتی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ کم عمری کی شادی ایک جرم ہے لیکن اسے جرم ماننے والے بہت کم نظر آتے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کم عمر ی کی شادیوں کا رواج پہلے کی نسبت کم ہوا ہے، یقیناً اس کی اہم وجہ تعلیم و شعور کے ساتھ بہتر قانون سازی بھی ہے ، ساتھ ہی سول سوسائٹی کی اونچی آوازوں نے بھی اپنا اثر ڈالا ہے لیکن یہ آج بھی اہم ترین مسئلہ ہے۔
یونیسیف کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک میں کم عمر ی میں کی جانے والی شادیوں کی شرح 28 فیصدہے جبکہ پاکستان جرنل آف سوشل ایشو کے مطابق بنگلا دیش میں 65 فیصد، انڈیا میں 47 فیصد اورپاکستان کی 40 فیصد بچیاں18 سال سے پہلے ہی کسی کی دلہن بنا کر بیا ہ دی جاتی ہیں، تکلیف دہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 7 فیصد بچیوں کی شادی 15 سال سے کم عمر میں کردی جاتی ہے۔
یہ مضمون کافی سال پرانا ہوچکا ہے لیکن وقت تو بدل گیا ، حالات بدلنے میں شاید ابھی کچھ اور وقت درکار ہے۔ 2021 کی پہلی ششماہی رپورٹ کے مطابق پہلے 6 ماہ میں پاکستان بھر میں 51 چاِئلڈ میرج کیسز رپورٹ کئے گئے تھے ۔
جہاں تک قانون کی بات ہے تو پاکستان میں 1929 کا میریج رسٹرینٹ ایکٹ تادم تحریر رائج ہے جس میں لڑکی کے لیے شادی کی عمر 16 اور لڑکے کے لیے 18 سال ہے۔ جبکہ سزا ایک ہزار روپے جرمانہ اور ایک مہینے کی قید ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی سطح پر سب سے پہلے سندھ نے کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے 2013 میں قانون سازی کی جس میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے عمرکی حد 18 سال رکھی گئی ہے جس کے مطابق والدین یا دیگر ذمہ داران کے لیے تین سال تک سزا مقرر کی گئی ہے جبکہ اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔
پنجاب نے بھی اس سلسلے میں قانون سازی کی اور اب لڑکی کی شادی 18سال سے کم عمر میں نہیں کی جاسکتی ۔اس سے قبل پنجاب نے 2015 میں قانون سازی کے تحت لڑکی کی شادی کی عمر 16سال جبکہ لڑکے کی عمر 18سال رکھی تھی لیکن ، 2019 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کم عمری کی شادیاں روکنے کیلئے شادی کی کم از کم عمر 18سال کرنے کا بل منظور کیا ۔
خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد میں کم عمری کی شادی کے روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ہے جہاں اب بھی 1929 کا قانون نافذ ہے۔
خیبر پختونخوا میں اس حوالے سے 2014 میں ایک بل خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کے زیر نگرانی ڈرافٹ کیا گیا جس پر تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور اپنی رائے کے اظہار کا بھرپور موقع دیا گیا۔ جبکہ اس بل کا صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے کا انتظار ہے۔ حالانکہ وقتاً فوقتاً حکومتی متعلقہ وزراء، ممبران اسمبلی اور افسرز نے اس بل کو اسمبلی سے پاس کروانے کا کئی بار عندیہ بھی دیا ہے۔ لیکن تاحال یہ بل قانون بننے کا منتظر ہے۔
اسی طرح اگر دیکھا جائے تو پاکستان نے ’بین الاقوامی معاہدہ برائے حقوق اطفال 1989‘ پر نہ صرف یہ کہ دستخط کیا ہے بلکہ اس کی توثیق بھی کیا ہے جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ کہلاتا ہے۔ جس کے مندرجہ ذیل چار بنیادی اصول ہیں:
1 ) غیر امتیازی سلوک
2 ) بچوں کی بہترین مفاد
3 ) بقاء و ترقی
4 ) شرکت یعنی رائے کا اظہار
جن لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے انہیں نہ صرف اپنے فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ انہیں صحتِ عامہ کی سہولیات تک مناسب رسائی نہ ہونے کے وجہ سے انہیں صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کم عمری کی شادی یقینا ایک سماجی مسئلہ بن چکا ہے۔ جس سے اور سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔ تعلیم 5 سال سے لے کر 16 سال تک ہر بچے کا بنیادی حق ہے جبکہ کم عمری کی شادی بچے سے تعلیم کا حق چین لیتا ہے۔ اسی طرح کم عمری کی شادی سے ماں اور بچے کے صحت کے حوالے سے کئی بیماریوں یہاں تک کہ حمل و زچگی کے دوران ماں اور بچے کی موت کا سب سے بڑا سبب بھی بتایا جاتا ہے۔ ذمہ داریوں کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کم عمری ہی میں شادی کے بعد خاندان، اور بچوں کی دیکھ بھال اور روز روز کے روایتی گھریلو لڑائی جھگڑے ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کو بھی جنم دیتے ہیں جن کے اثرات نہ صرف بچوں اور خاندان پر پڑتے ہیں بلکہ پورا معاشرہ اس کے لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ جبکہ آبادی میں اضافہ اور معاشی مسائل کبھی بھی کوئی بھی کم عمری کی شادی سے الگ تھلگ نہیں کر سکتا۔
نو عمر لڑکیاں اور خاص کر 15 سال سے کم عمر بچیوں کے زچگی کے مسائل ، بڑی عمر کے خواتین کی نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں، خون میں کمی کے ساتھ ساتھ ان بچیوں میں بلند فشار خون اور فولاد کی کمی بھی اہم مسئلہ ہے اور ان کے پیدا ہونے والے بچوںمیں وزن کم اور پری میچور ڈیلیوری کا امکان زیادہ ہے، حمل سے پہلے اور بعد میں ڈیپریشن کم عمر بچیوں میں زیادہ رپور ٹ کیا جاتا ہے۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کی روایت پرانی چلی آرہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان ماں اور پیدا ہونے والے بچے جسمانی ،ذہنی اورسماجی مسائل کی صورت میں اٹھاتے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شرح میں کمی تو نظر آرہی ہے لیکن کمی کا تناسب جس حساب سے ہونا چاہیئے وہ یقینی طور پر کم ہے۔ آگہی اور شعور ہی اس سماجی مسئلہ کا حل ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ماں باپ بچیوں کے بنیادی حقوق فراہم کئے جائیں۔غربت یا کسی اور وجہ کو بنیاد بنا کر کم عمر لڑکیوں کی شادی کرنا نہ صرف ان کے ساتھ ذیادتی ہے بلکہ آنے والی نسل کا بھی نقصان ہے۔
سندس رانا، کراچی