پاکستان میں دواؤں کی قیمتوں میں گزشتہ تین سالوں کے دوران چار بار اضافہ ہو چکا ہے۔
موجودہ حکومت کے آتے ہی چند ماہ میں پہلے وزیر صحت عامر کیانی کو ادویات 400 گنا تک مہنگا کرنے کے الزام پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تاہم ادویات کی قیمتوں میں اضافہ واپس نہ ہوا۔ اڑھائی سال سے وزارت کا قلمدان پہلے معاون صحت ظفر مرزا اور اب فیصل سلطان کے پاس ہے، اس دوران ادویات کی قیمتیں تین گنا بڑھ چکی ہیں۔
فارما انڈسٹری سے منسلک افراد کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر ادویات کی قیمتوں میں 30 فیصد کے قریب اضافہ ہوا اور بعض دواؤں کی قیمتیں 400 فیصد تک بڑھ گئیں۔
سربراہ آل پاکستان فارما انڈسٹری زاہد بختاوری کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز کو پابند کیا جائے کہ دوا کا سالٹ یا فارمولا لکھیں نہ کہ برینڈ کا نام۔
زاہد بختاوری کا کہنا ہے کہ کسی بھی بین الاقوامی کمپنی کا پاکستان میں کوئی سیٹ اپ موجود نہیں، تمام ادویات ایک ہی فارمولا اور طرز پر لوکل صنعت میں تیار ہوتی ہیں، ڈاکٹرز برینڈ کا نام نہ لکھیں تاکہ شہری کسی بھی دوا کی فارمولا کی بنیاد پر خریداری میں آزاد ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ تین سال قبل کولیسٹرول کو قابو میں رکھنے کی دوا 207 روپے کی تھی لیکن اب 275 کی ملتی ہے، عارضہ قلب یا بلڈ پریشر کی صورت میں خون پتلا رکھنے کی دوا 311 روپے سے بڑھ کر 397 روپے کی ہو گئی ہے جبکہ معدے کی دوا 8 روپے کی بارہ گولیوں کے بجائے 26 روپے، بخار یا سر درد کی 12 گولیاں 10 کے بجائے اب 16 روپے میں ملتی ہیں۔
ڈریپ حکام کا کہنا ہے کہ 10 فیصد تک سالانہ مہنگائی کے باعث ادویہ ساز کمپنیوں کو قیمتیں بڑھانے کی اجازت ہوتی ہے جبکہ شہریوں کا کہنا ہےکہ مہنگائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ایک وقت کی روٹی مشکل سے میسر ہے، بیماری آ جائے تو لنگر سے کھانا کھاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنا ہے تو ڈاکٹرز اور فارما انڈسٹری کے نمائندوں کے رابطے ختم کرنا ہوں گے، حکومت جب تک مؤثر کردار ادا نہیں کرتی قیمتیں کنٹرول میں رکھنا ناممکن ہے۔