مارے معاشرے میں جہاں خواجہ سراؤں کو حقارت کی نظر اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے دیکھا جاتا ہے وہیں کراچی کی خواجہ سرا نیشا راؤ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے لوگوں کے نظریات کو غلط ثابت کر رہی ہیں۔
نیشا راؤ پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ہیں جنہوں نے سندھ مسلم کالج سے وکالت کی ڈگری حاصل کررکھی ہے جب کہ حال ہی میں انہیں جامعہ کراچی میں ایل ایل ایم (قانون میں ایم فِل) میں داخلہ دیا گیا ہے۔
نیشا نے بحیثیت پہلی خواجہ سرا ایم فِل میں داخلہ مِلنے پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ‘میں دو ماہ سے کافی پریشان تھی، میں نے رواں برس جون میں امتحان دیا تھا جو کہ دو گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل تھا جب کہ اب 4 دِن قبل اطلاع ملی کہ میرا داخلہ ہوگیا ہے۔’
نیشا نے اپنی ڈگری سے متعلق مزید بتایا کہ دو سال کی ایل ایل ایم کی ڈگری ایم فِل کے برابر ہوتی ہے جو کہ پاکستان میں پہلی بار کوئی خواجہ سرا کرے گی۔
نیشا کے مطابق جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کا کہنا ہے کہ کراچی یونیورسٹی پاکستان کی پہلی جامعہ ہے جو کسی خواجہ سرا کو ایل ایل ایم کی ڈگری دے گی۔
نیشا نے خواجہ سراؤں کی تعلیم سے متعلق کہا کہ ہمارے ملک میں اس صنف کے لیے وسائل نا ہونے کے باعث ان کے لیے تعلیم کا حصول بے حد مشکل ہے، انہیں تعلیمی اداروں میں داخلے نہیں دیے جاتے نا ہی ان کے لیے کوئی کوٹہ سسٹم ہے۔
نیشا کا کہنا تھا کہ ‘میں نے ایل ایل ایم کے ایک سمسٹر کی ایک لاکھ 4 ہزار روپے فیس جمع کروائی ہے، یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ خواجہ سرا جو سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں ان کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ناممکن سی بات ہے۔ یہیں سے چیلنجز کی شروعات ہے، ہم بھیک مانگیں یا تعلیم مکمل کریں۔ اتنے پیسوں کی وجہ سے خواجہ سرا تعلیم کی جانب اپنا ذہن ہی نہیں بنا پاتے، ایل ایل ایم کی ڈگری مکمل کرنے میں میرے تقریباً 4 لاکھ روپے لگ جائیں گے۔’
نیشا نے مزید کہا کہ انہوں نے باآسانی یونیورسٹی جانے کے لیے ایک لاکھ 70 ہزار کی اسکوٹی بھی خریدی ہے۔
نیشا نے شکوہ کیا کہ خواجہ سراؤں کے لیے کسی قسم کی کوئی اسکالرشپ نہیں ہے۔
نیشا کاکہنا ہے کہ وہ اپنے لیے اسکالر شپ کا مطالبہ نہیں کر رہیں مگر بھیک مانگنے سے اچھا ہے جامعات خود خواجہ سراؤں کو اسکالرشپ کی پیشکش کریں۔
انہوں نے کہا کہ ‘ کیا انہیں نہیں پتہ کہ ہمارا ذریعہ معاش کیا ہوتا ہے؟ میرے لیے بے شک فیس میں کسی قسم کی رعایت نا ہو لیکن وہ خواجہ سرا جو پڑھنا چاہتے ہیں اور ضرورتمند ہیں ان کے لیے ضرور فیس میں کمی کرنی چاہیے۔’
نیشا راؤ نے بتایا کہ جامعہ میں انتظامیہ کا رویہ ان کے ساتھ کافی اچھا رہا اور انہوں نے بہت تعاون کیا جب کہ داخلہ ملنے پر انہیں ذاتی طور پر فون کرکے مبارکباد بھی دی گئی۔
نیشا سے جب سوال کیا گیا کہ کہیں آپ کو اس بات کا خوف تو نہیں کہ لوگ آپ کو تنگ کریں گے یا جملے کسیں گے؟ تو انہوں نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا کہ ‘یہ سب خواجہ سرا کی شخصیت پر منحصر ہوتا ہے، اگر کوئی خواجہ سرا اچھے طریقے سے بات کرتا ہو، کم میک اپ کرے، ٹھیک سے چلے تو لوگ اسے تنگ نہیں کرتے، مجھے آج تک کبھی اس قسم کی ناگوار صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔’
کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک فعال شہری بننے کے لیے خواجہ سراؤں کی ہمیں حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ نیشا راؤ کو داخلہ دینے کا فیصلہ بورڈ آف ایڈوانس اسٹڈیز اینڈ ریسرچ (بی ایس آر) کے اجلاس میں ہوا۔
اجلاس میں شریک ایک ڈین نے بتایا کہ نشا راؤ کے ٹیسٹ میں کچھ نمبر کم تھے تاہم خواجہ سرا ہونے اور اعلیٰ تعلیم میں اس کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اسے خصوصی طور پرقانون میں ایم فل کرنے کی اجازت دی گئی۔
جب خالد عراقی سے پوچھا گیا کہ اگر جامعہ میں کوئی خواجہ سرا ٹیچر کے عہدے کے لیے درخواست دے تو کیا اسے نوکری دینے پر غور کیا جائے گا؟
اس پر انہوں نے کافی مختصر جوابات دیتے ہوئے بتایا کہ یہ فیصلہ سلیکشن کمیٹی پر منحصر ہوگا۔
جامعہ کے وی سی نے تعلیم حاصل کرنے کے شوقین خواجہ سراؤں کو اسکالر شپ فراہم کرنے کے حوالے سے بتایا کہ اس کے لیے کوئی بھی طالب علم یونیورسٹی کے مالی امداد کے دفتر سے رابطہ کرسکتا ہے۔
خواجہ سراؤں کو لوگوں کے غیر مناسب رویے سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے جامعہ کی پالیسی سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔