ایک محبت سو افسانے اور تلقین شاہ جیسے کردار کے خالق اشفاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے 17برس بیت گئے ۔ اشفاق احمد کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ادب کی دنیا میں اپنا منفرد مقام بنایا اور ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
معروف ادیب، افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اور داستان گو اشفاق احمد 22 اگست 1925 کو بھارتی شہر ہوشیارپور میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ روم یونیورسٹی سے اطالوی اور فرانسیسی اور نوبلے گرے یونیورسٹی سے فرنچ سیکھی جبکہ نیویارک یونیورسٹی سے براڈ کاسٹنگ کی تربیت بھی حاصل کی۔
اشفاق احمد انیس سو سڑسٹھ میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔وہ انیس سو نواسی تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ اشفاق احمد صدر جنرل ضیاءالحق کےدور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گئے ۔اشفاق احمد کا شمار ان نامور ادیبوں میں کیا جاتا ہے جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے اور انیس سو ترپن میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔
داستان گو اور لیل و نہار نامی رسالوں کے مدیر رہے اور 1966ءسے 1992ءتک اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے،من چلے کا سودا،سفر در سفر،کھیل کہانی،توتا کہانی، اجلے پھول، سفر مینا، پھلکاری اور دیگر ان کی معروف تصانیف میں شامل ہیں۔
انیس سو پینسٹھ سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور ذومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور 41 سال تک چلتا رہا۔
انہیں کہانی لکھنے پر جتنا عبور تھا اسی طرح بہترین قصہ گو بھی تھے جس کی مثال پروگرام زاویہ میں نوجوانوں کی بھرپور تعداد میں شرکت تھی ۔
حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے نوازا ۔
صوفی مزاج کے حامل اشفاق احمد 7ستمبر 2004ءکو لاہور میں وفات پاگئےمگر اردو ادب کےلئے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔