بیانِ حلفی شائع کرنے سے متعلق توہینِ عدالت کیس میں سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہو گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے دورانِ سماعت دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی کہا کہ عباسی صاحب آپ کی درخواست آئی ہے، بتائیں کہ آرڈر میں کہاں کلیریکل غلطی ہے؟ ان پروسیڈنگ سے میں بھی ایجوکیٹ ہو رہا ہوں۔
انصار عباسی نے کہا کہ آرڈر میں لکھا گیا کہ اگر غلط حقائق بھی ہوئے تو مفادِ عامہ میں چھاپوں گا، جبکہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ نے درخواست میں یہ بھی لکھا کہ آپ کو نہیں معلوم تھا کہ بیانِ حلفی درست ہے یا غلط، فریڈم آف ایکسپریشن کا خیال اس بینچ سے زیادہ کسی کو نہیں ہے، اگر کوئی بڑا نام آپ کو کوئی بیانِ حلفی دے گا تو آپ چھاپ دیں گے؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ بیانیہ یہ ہے کہ ثاقب نثار نے ایک کیس میں جج سے بات کی، بینچ میں تو وہ جج صاحب ہی شامل نہیں تھے، بینچ میں تو میں، جسٹس محسن اختر کیانی اور میاں گل حسن اورنگزیب تھے، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ ہم تینوں ججز انفلوئنسڈ تھے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ساری پروسیڈنگ میں بہت کوشش کی کہ آپ کو احساس ہو جائے کہ آپ نے کیا کیا؟ آپ پچھلے سارے اخبارات دیکھ لیں کہ آپ کیا چھاپ رہے ہیں؟ انکوائری کرانی ہے تو ان کی نہیں ہو گی جن کے بارے میں لکھا گیا، انکوائری پھر ان ججز کی ہوگی جو اس وقت بینچز میں موجود تھے، جب اسٹوری آئی تو اپیلیں 2 دن بعد سماعت کے لیے مقرر تھیں۔
انصار عباسی نے عدالت کو بتایا کہ بیانِ حلفی کے بارے میں رانا شمیم نے بتانا ہے، ہم نے رانا شمیم کا دعویٰ چھاپا اور ثاقب نثار کا بھی دعویٰ چھاپا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت اظہارِ رائے کی آزادی کا بہت احترام کرتی ہے، عدالت سب سے زیادہ سائل کے حقوق کی محافظ ہے، مجھ پر جتنی مرضی تنقید ہو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، عدالت میں زیرِ سماعت مقدمے کی اہمیت کا کسی کو اندازہ نہیں، ناسمجھی میں بھی چیزیں ہو جاتی ہیں، جوڈیشل کیریئر میں یہ دوسرا توہینِ عدالت کا نوٹس لیا ہے، پہلے بھی ایک زیرِ التواء کیس کی وجہ سے توہینِ عدالت کا نوٹس لیا تھا، آپ کا یہاں کیس ہے اور آپ نے عالمی اداروں کے بیانات چھاپے۔
انصار عباسی نے استدعا کی کہ میرے خیال سے فردِ جرم عائد نہیں ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ آپ نے نہیں کورٹ نے طے کرنا ہے، آپ عدالت کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے۔
سینئر صحافی ناصر زیدی نے استدعا کی کہ ہمیں اس عدالت سے انصاف ملا ہے اور آپ اندھیرے میں روشنی کی کرن ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ چارج نہ فریم کریں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے ان سے استفسار کیا کہ کیا اس کورٹ کا آخری آرڈر انٹرنیشنل آرگنائزیشنز کو بھجوایا گیا تھا؟
ناصر زیدی نے جواب دیا کہ عدالتی حکم نامہ پرنٹ ہوا اور اس کا متن دنیا بھر میں گیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا ان حالات و واقعات میں باہر کے کسی شخص کو عدالتی معاون بنا لوں؟
انصار عباسی نے عدالت کو بتایا کہ ہم مختلف بیانات چھاپتے ہیں، یہ نہیں کہتے کہ بیان دینے والا سچ ہی بول رہا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ اگرآپ کو یقین نہیں تھا کہ بیانِ حلفی سچ ہے تو پھر آپ نے کیوں چھاپا؟
اس موقع پر رانا شمیم کے وکیل عبدالطیف آفریدی نے عدالت کی اجازت سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم کسی انٹرنیشنل آرگنائزیشن کو کسی ایشو پر کمنٹ کرنے سے نہیں روک سکتے، ہر روز کوئی نہ کوئی وزیر یا مشیر بیان دیتا ہے اور انہیں شائع بھی کیا جاتا ہے، توہینِ عدالت کے ایک مبینہ ملزم عدالت کے سامنے نہیں تو آج فردِ جرم عائد نہیں ہو سکتی۔
انصار عباسی نے عدالت کو بتایا کہ بیانِ حلفی کی اشاعت میں احتیاط برتی اور کورٹ یا اس کورٹ کے جج کا نام نہیں لکھا، میری نظر میں یہ معاملہ زیرِ التواء نہیں تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان سے سوال کیا کہ اگر یہ بیانِ حلفی کے بجائے صرف بیان ہوتا تو بھی آپ چھاپتے؟
انصار عباسی نے جواب دیا کہ اگر یہ بیانِ حلفی کے بجائے صرف بیان ہوتا تو پھر یہ بیان نہیں چھاپتا، ایڈیٹر ڈان ظفر عباس نے ڈیڑھ ماہ بعد کہا کہ ان کے پاس یہ بیانِ حلفی آتا تو وہ بھی ضرور چھاپتے، ان کا صحافت میں بڑا نام ہے اور ہمارے میڈیا گروپ سے ان کا تعلق نہیں ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ شکر ہے کہ انہوں نے نہیں چھاپا ورنہ انہیں بھی توہینِ عدالت کا نوٹس ملتا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کا بیانِ حلفی شائع کرنے سے متعلق توہینِ عدالت کیس میں آج (7 جنوری کو) تمام ملزمان پر فردِ جرم عائد کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کر رکھا ہے۔