دہشت گرد افغانستان میں پہلے سے زیادہ آزاد ہیں، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے ایسے اقدامات نہیں اٹھائے گئے جو ظاہر کریں کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ فراہم نہیں کررہے بلکہ اس کے برعکس دہشت گرد افغانستان میں پہلے سے زیادہ آزاد ہیں۔

جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ پر عائد پابندیوں کا جائزہ لینے کے ذمہ دار ماہرین کا کہنا ہے کہ 15 اگست کو طالبان کا اقتدار میں آنا اور20 سال بعد بہت جلد بازی میں امریکا اور نیٹو کا وہاں سے انخلاء گزشتہ سال کے انتہائی اہم واقعات ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ القاعدہ نے طالبان کو فتح پر مبارکباد کا بیان جاری کیا تھا، لیکن اس کے بعد سے اس تنظیم نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ عالمی سطح پر طالبان کی بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے کی کوششوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتی۔

اقوام متحدہ کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ملک نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے یہ رپورٹ کیا ہے کہ امین محمد الحق صام خان جو اسامہ بن لادن کی سیکیورٹی کے ذمہ دار تھے، گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں اپنے گھر واپس لوٹے تھے۔ اس کے علاوہ بن لادن کے بیٹے عبداللہ نے طالبان سے بات چیت کرنے کے لیے گزشتہ سال اکتوبر میں افغانستان کا دورہ کیا تھا

ماہرین کے مطابق اگرچہ اسلامک اسٹیٹ افغانستان میں محدود علاقوں میں موجود ہے لیکن یہ تنظیم بہت پیچیدہ حملے کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے بعد اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی تعداد دو ہزار سے بڑھ کر 4 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

واضح رہے کہ طالبان ماضی میں سن 1996 سے سن 2001 تک افغانستان پر حکومت کر چکے ہیں۔ انہیں اقتدار سے ہٹانے کی سب سے بڑی وجہ افغانستان میں القاعدہ کی سرگرمیاں اور طالبان کی جانب سے اس تنظیم کے اس وقت کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینا تھی۔ فروری 2020ء کے امریکا طالبان امن معاہدے میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ طالبان افغانستان میں دہشت گردوں کو پناہ نہیں دیں گے.

اپنا تبصرہ بھیجیں