وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چھوٹے اور متوسط درجے کے کاروبار (ایس ایم ایز) کے فروغ کے لیے انقلابی پالیسی تیار کی گئی ہے، نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو بلاضمانت قرضے فراہم کیے جائیں گے جبکہ کاروبار میں نقصان کا بوجھ بھی حکومت اٹھائے گی۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائےصنعت و پیداوار خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ کل وفاقی کابینہ نے ایک ایس ایم ای پالیسی کو منظورکی ہے، جس کے تحت نئے کاروبار کرنے والوں قرضے دیئے جائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت پاکستان میں 10 لاکھ مینو فیکچرر کام کر رہے ہیں، جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، 78 فیصد نمو ایس ایم ای فراہم کر رہا ہے، اس کے لیے ہم نے اس پر قانون سازی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی میں ایس ایم ایز کے ذریعے کاروبار شروع کرنے والے کے اخراجات کم کیے گئے ہیں جس کے بعد زیرو ٹائم انوسٹمنٹ سے کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے،یہ پالیسی پنجاب اور بلوچستان میں نافذ ہوچکی ہےاور کے پی میں بھی اس کا نفاذ جلدکردیا جائے گا۔
اس موقع پر وفاقی وزیر نے سندھ حکومت سے بھی ایس ایم ای پالیسی میں حصہ ڈالنے کی درخواست کی۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ ایس ایم ای کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں لو رسک، میڈیم اور ہائی رسک میں رکھا گیا ہے، لو رسک میں ٹرانسپورٹ، بپلک سروس سیکٹر، ہول سیل کو شامل کیا گیا ہے جس کے لیے این او سی ضرورت نہیں ہے، میڈیم رسک میں، آٹو پارٹ، کٹلری، اسپورٹس وغیرہ شامل ہے، اسکو 30 روز کے لیے این او سی دیا جائے گا، جبکہ ہائی رسک میں بوئلرز وغیرہ سے متعلق کاروبار کو شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کاروبار کے لیے این او سیز کے دفاتر سے جان چھوٹ گئی ہے، ہم نے ایک پورٹل بنایا ہے اس میں سیلف ڈیکلیئریشن کی 2 فیصد نگرانی ہوگی،اور فنڈنگ کے حوالے تاریخ اور دفاتر کے بارے میں بھی پورٹل کو آگاہ کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پالیسی کے ذریعے کاروبار میں رسک کے حوالے سے مختلف قوانین پر بھی نظر ثانی کی جارہی ہے، ایس ایم ای کے لیے کئی قوانین زیر غور ہیں جو ہم جنوری کے اختتام تک لے کر آئیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ رواں سال کے بجٹ میں حکومت نے مینوفیچکر سیکٹرز کے ٹیکس کے لیے ادائیگی کم کردی ہے، جس کی آمدنی 10 کروڑ سے کم ہے وہ 0.25 فیصد، اور جن کی آمدنی 10 کروڑ سے 25 کروڑ ہے ان کے لیے ٹیکس 0.5 کردیا ہے، اور یہ فیکس ہوگا۔
خسرو بختیار نے بتایا کہ ویمن انٹر پرائزز کے ٹیکس میں 25 فیصد چھوٹ دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا جی قرضوں کے حوالے سے آسان فنانس اسکیم لا رہے ہیں، جس میں وفاقی حکومت اور بینک بغیر ضمانت کے ایک کروڑ تک کا قرضہ دیں گے، اور اگر کاروبار میں نقصان ہوتا ہے وہ حکومت اور کمرشل بینکز برداشت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایس ایم ایز کے لیے سب سے مسئلہ زمین کا ہے جس کے لیے پنجاب، بلوچستان اور کےپی حکومت اور وفاقی حکومت آسان اقساط پر قرضے دیں گے،
انہوں نے مزید کہاہے کہ اسی پالیسی میں 5 ارب روپے سمیڈا فنڈز کے مختص کیے گئے ہیں جس کے تحت ایس ایم ایز سینٹرز قائم کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلی دفع پالیسی کے ساتھ نفاذ کو میکنزم بھی تیار کیا گیا جس میں تاریخ بھی درج کی گئی ہے کہ کس محکمے نے کس تاریخ کو کیا کام کرنا ہے۔
انہوں نے کیا کہ اگر کاروبار میں ایک کروڑ تک کا نقصان ہوگیا توحکومت اور کمرشل بینک کاسٹ شیئرنگ کریں گے، یہ ایک انقلابی اقدام ہے اس سلسلے میں کاروبار کا منصوبہ کمرشل بینک سے منظور کروایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کمرشل سیکٹر کو بجلی کے استعمال پر 30 فیصد چھوٹ دی جارہی ہے اور ہم صنعتکاروں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ کمرشل سے انڈسٹریل کنکشن میں آئے اور اس سے مستفید ہوں۔
ایک سوال کے جواب پر ان کاکہنا تھا کہ حکومتی قرضوں پر شرح سود نو فیصد ہوگی۔